ص۴۷۳) سے مرزاقادیانی کی اصل عبارت نقل کئے دیتے ہیں۔
’’منجملہ ان علامات کے جو اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ وہ خدمات خاصہ ہیں جو اس عاجز کو مسیح ابن مریم کی خدمات کے رنگ پر سپرد کی گئی ہیں۔ کیونکہ مسیح اس وقت یہودیوں میں آیا تھا۔ جب کہ تورات کا مغز اور بطن یہودیوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا تھا اور وہ زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد تھا کہ جب مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پس ایسے ہی زمانہ میں یہ عاجز آیا اور یہ زمانہ بھی حضرت مثیل موسیٰ علیہ السلام (محمدؐ) کے وقت سے اسی زمانہ کے قریب قریب گذر چکا تھا۔ جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کے درمیان میں زمانہ تھا۔‘‘
یہ عبارت صاف بتارہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی کے سر پر نہیں۔ بلکہ ۱۴سوسال بعد یعنی پندرھویں صدی میں تشریف لائے تھے۔
مرزاقادیانی کا ایک اور ارشاد
مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۲۷۸، خزائن ج۳ ص۲۴۱) میں فرماتے ہیں: ’’پیش گوئیوں میں ہمیشہ ابہام ہوتا ہے۔ صاف اور مفصل بیان نہیں ہوتا۔ کیونکہ پیش گوئیوں میں سننے والوں کا امتحان منظور ہوتا ہے۔ چنانچہ تورات میں آنحضرتﷺ کے حق میں پیش گوئی اس قسم کی مبہم ہے۔ جس میں وقت، ملک اور نام نہیں بتایا گیا۔ اگر خداتعالیٰ کو امتحان منظور نہ ہوتا تو پھر اس طرح بیان کرنا چاہئے تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں تیرے بعد بائیسویں صدی میں ملک عرب میں بنی اسماعیل میں سے ایک نبی پیدا کروں گا۔ جس کا نام محمد ہوگا اور ان کے باپ کا نام عبداﷲ اور دادا کا نام عبدالمطلب اور والدہ کا نام آمنہ ہوگا اور وہ مکہ شہر میں پیدا ہوگا۔‘‘
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بائیسویں صدی میں پیدا ہوئے۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرتﷺ کے درمیان کتنا عرصہ ہے تو یہ امر مسلمہ ہے کہ آنحضرتﷺ اپریل ۵۷۱ء یعنی چھٹی صدی میں پیدا ہوئے۔ بائیسویں صدی سے چھ صدی نکال دیجئے۔ تو نتیجہ صاف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سولہویں صدی میں تشریف لائے۔
پس نتیجہ صاف ہے کہ مرزاقادیانی اپنے ہی بیان کے مطابق مقررہ وقت سے بہت پہلے (۲۰۰سال بیفورٹائم) تشریف لے آئے ہیں۔ لہٰذا آپ مسیح موعود نہیں۔