مسلمانوں کے تمام حقوق سیاسیہ کی نگہداشت، اسلامی مملکت میں امن وامان کا قیام، اعدائے اسلام سے جہاد بالسیف، اسلامی نظام کا احیائ، مرتدین کی سرکوبی، حدود الٰہیہ کا اجرائ، قرآن وسنت کی تعلیم وتبلیغ اور اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت وغیرہ تمام امور شامل ہیں۔ موعودہ خلافت کے یہ فرائض قرآن مجید کی متفرق آیات میں تفصیلاً اور آیت مذکورہ میں مختصراً یوں بیان کئے گئے ہیں۔
’’ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضیٰ لہم ولیبدلنہم من بعد خوفہم امنا‘‘ {یعنی اﷲتعالیٰ اس خلافت کے ذریعے مسلمانوں کے دین کو جو اس کا پسندیدہ دین ہے۔ تسلط عطا فرمائے گا اور مسلمانوں کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا۔}
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک یہ آیت مسئلہ خلافت میں فیصلہ کن ہے اور وہ اس آیت کریمہ سے خلفائے راشدین کی خلافت پر استدلال کرتے ہیں۔
دوم… ہم حیران ہیںکہ مرزاقادیانی ایک طرف تو انگریز بہادر کے زیرسایہ نام نہاد، روحانی خلافت کے لئے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور مولا علیؓ کی خلافت کو بھی اس موعودہ خلافت میں شامل کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ اپ اپنی مشہور کتاب سرالخلافتہ میں ان آیات کی تفسیر بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’فالحاصل ان ہذہ الایات کلہا مخبرۃ عن خلافۃ الصدیق ولیس لہ محمل اٰخر‘‘ یعنی حاصل کلام یہ کہ ان تمام آیات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کی خبر ہے اور خلافت صدیق کے علاوہ کوئی دوسرا مصداق اس آیت کا نہیں ہے۔
اس عبارت کے چند سطر بعد اسی صفحہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’ولا شک ان مصداق ہذا النباء لیس الا ابوبکر وزمانہ‘‘ یعنی اس امر میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس خبر (خلافت موعود) کا مصداق صرف حضرت ابوبکرؓ اور ان کا زمانہ (خلافت) ہے۔
(الخلافۃ ص۱۷، خزائن ج۸ ص۳۳۶)
پھر اسی کتاب کے ص۱۸ پر شیعہ حضرات کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں: ’’وعلمت ان الصدیق اعظم شانا وارفع مکاناً من جمیع الصابۃ وھو الخلیفۃ الاوّل بغیر الا سترابۃ وفیہ نزلت ایات الخلافۃ‘‘ یعنی مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے یہ علم بلاشک وشبہ دیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ تمام صحابہ سے اعلیٰ شان اور ارفع مکان کے مالک ہیں اور خلافت (موعودہ) والی تمام آیات انہی کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔
(سرالخلافہ ص۱۸، خزائن ج۸ ص۳۳۷)