چاہتا ہے… اگر متکلم کے اپنے ذہن میں کوئی ایسا معنی ہو جو الفاظ کے مطابق صحیح ہو لیکن وہ اپنے مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا اور کوئی دوسرا مفہوم سمجھانا چاہتا ہو تو ایسا کلام متکلم کے اپنے ارادہ کے لحاظ سے تو سچ ہوگا۔ لیکن چونکہ مخاطب کو کچھ اور سمجھانا مقصود ہے۔ اس لحاظ سے ایسا کلام جھوٹ کہلائے گا۔ توریہ اور تعریض میں بھی یہی ہوتا ہے کہ متکلم اپنے کلام میں سچا ہونے کے باوجود مخاطب کو کچھ اور سمجھانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کلمات کو جھوٹ سے تعبیر فرمایا۔ حالانکہ آپ خود بھی سچے تھے اور خبر بھی سچی ہی دے رہے تھے۔ اس بات پر خوب غور کیجئے۔}
۳… امام نوویؒ شارح صحیح مسلم اسی حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’ان الکذبات المذکورۃ انما ھیی بالنسبۃ الیٰ فہم المخاطب والسامع وامافی نفس الامر فلیست کذباً مذموماً لانہ ورّی بہا (بحوالہ تحفۃ الاحوذی ج۴ ص۱۴۸، کتاب التفسیر زیر آیت بل فعلہ کبیرہم)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ جھوٹ مخاطب اور سامع کے فہم کی بناء پر تو جھوٹ ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ وہ جھوٹ نہیں جو قابل مذمت ہو۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان فقرات میں توریہ فرمایا ہے۔}
۴… ’’والمراد بالکذب، الکذب صورۃ لا حقیقۃ فیقول ذالک بانہ کذب بالنسبۃ الیٰ فہم السامعین (صحیح بخاری کتاب الانبیاء اصح المطابع ج۱ ص۴۷۴، باب قول اﷲ عزوجل واتخذاﷲ ابراہیم خلیلاً)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان کلمات میں جھوٹ سے مراد صرف ظاہری جھوٹ ہے اور انہیں سامعین کے فہم کی وجہ سے جھوٹ کہاگیا ہے۔}
۵… ’’لیس ہذا من باب الکذب الحقیقی الذی یذم فاعلہ حاشا وکلا وانما اطلق الکذب علیٰ ہذا تجوزاً وانما ھو من المعاریض فی الکلام لمقصد شرعی دینی (تفسیر ابن کثیر آیت انی سقیم ج۷ ص۲۱)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ فقرات ہر گزہرگز ایسے حقیقی جھوٹ نہیں ہیں۔ جن کا مرتکب قابل مذمت ہو۔ (بلکہ) ان فقرات کو مجازی رنگ میں جھوٹ کہاگیا ہے۔ درحقیقت یہ تعریضات ہیں۔ وہ بھی شرعی اور دینی مقصد کے لئے۔}
۶… ’’فان قلت قد سماھا النبی کذبات قلت معناہ انہ لم یتکلم بکلام صورتہ صورۃ الکذب وان کان حقاً فی الباطن الا ہذہ الکلمات