(تفسیر خازن مصری ج۳ ص۲۶۴، آیت بل فعلہ کبیرہم)‘‘ {اگر تو کہے کہ آنحضرتﷺ نے ان کلمات کو جھوٹ (کیوں) کہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ آنحضرتﷺ کے اسی ارشاد کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساری زندگی میں صرف یہی کلمات کہے ہیں جو درحقیقت سچ ہونے کے باوجود ظاہراً جھوٹ سے ملتے جلتے ہیں۔}
۷… ’’والکذب حرام الا اذا عرض والذی قالہ ابراہیم معراض من الکلام (تفسیر مدارک زیر آیت انی سقیم برحاشیہ تفسیر خازن)‘‘ {تعریضی رنگ کے علاوہ جھوٹ بالکل حرام ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کلام میں تعریض فرمائی تھی۔}
۸… امام فخر الدین رازی مجدد صدی ششم حدیث مذکورہ پر جرح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ثم ان ذالک الخبر لوصح فہو معمول علی المعارض (تفسیر کبیر ج۶ ص۱۶۴، آیت بل فعلہ کبیرہم)‘‘ {اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر کذبات سے مراد تعریضات ہیں۔}
۹… ’’والمراد بالکذبات التعریضات والتوریۃ (تفسیر مظہری ج۸ ص۱۲۳، آیت انی سقم)‘‘ {اس حدیث میں کذبات سے مراد تعریضات اور توریہ ہے۔}
۱۰… ’’انی سقیم اراد التوریۃ ای ساسقم اوسقیم النفس من کفرہم (تفسیر جامع البیان ص۳۸۱، آیت انی سقیم)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو بیمار کہا تو انہوں نے توریہ کیا تھا اور ان کی مراد یہ تھی کہ میں بیمار ہو جاؤں گا یا میرا دل تمہارے کفر سے بیزار ہے۔}
۱۱… ’’وما روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال لابراہیم ثلاث کذبات تسمیۃ للمعاریض کذباً لماشابہت صورتہا صورۃ (تفسیر بیضاوی مصری ج۳ ص۱۹۶، آیت بل فصلہ کبیرہم)‘‘ {آنحضرتﷺ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن تین کلمات کو جھوٹ کہا ہے۔ درحقیقت تعریضات ہیں اور ان کی ظاہری مشابہت سے کذبات کہا گیا ہے۔}
۱۲… امام جلال الدین سیوطیؒ مجدد صدی نہم فرماتے ہیں: ’’واما التعریض فہو لفظ استعمل فی معناہ للتلویح بغیرہ نحو بل فعل کبیرہم ہذا (الاتقان فی علوم القرآن مصری ج۲ ص۴۸، نوع ۵۴)‘‘ {تعریض یہ ہے کہ ایک لفظ استعمال تو اپنے