دفع دخل مقدر
اس مقام پر اگر کوئی مرزائی یہ کہے کہ یہ تمام تصریحات تو ہمارے حضرت صاحب اور خلیفہ صاحب کی ہیں اور انہوں نے ہی اس الجھے ہوئے مسئلہ کو سلجھایا ہے۔ کیونکہ دوسرے علماء کے نزدیک کذبات ابراہیمی کی حقیقت یہ نہیں اور نہ ہی دیگر علماء حدیث بخاری کی یہ تشریح فرماتے ہیں تو اس کے جواب میں یہ بتانا ضروری ہے کہ کذبات ابراہیمی کی اس تشریح کا سہرا مرزاقادیانی اور خلیفہ صاحب کے سر نہیں۔ بلکہ ابتداء سے محققین علمائے اہل سنت حدیث بخاری کو صحیح کہنے کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حقیقی جھوٹ سے معصوم کہتے رہے ہیں اور ان کی تحقیق بھی یہی ہے کہ جناب خلیل نے ان ارشادات میں توریہ فرمایا ہے اور یہ کلمات تعریفی انداز میں کہے ہیں۔
چند محققین علمائ، مفسرین قرآن اور مجددین امت کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔
۱… شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجدد صدی ہفتم اسی مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اذا کان اللفظ مطابقاً المعناہ المتکلم ولم یطابق افہام المخاطب فہذا ایضا قد یسمی کذباً وقد لا یسمی ومنہ المعاریض لا کن یباح للحاجۃ (الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۴ ص۲۸۸)‘‘ {جب کوئی لفظ متکلم کی اپنی مراد کے مطابق ہو اور اس سے مخاطب کو کچھ اور سمجھانا مقصود ہو تو ایسے کلام کو جھوٹ بھی کہا جاسکتا ہے اور تعریض بھی ایسی ہی کلام کو کہتے ہیں اور تعریض ضرورت کے وقت جائز ہے۔}
۲… شیخ الاسلام کے لائق تلمیذ حافظ ابن القیمؒ مجدد صدی ہفتم اس اعتراض کو یوں حل فرماتے ہیں: ’’فان قیل کیف سماھا ابراہیم علیہ السلام کذبات وہی توریۃ وتعریض فنقول الکلام لہ نسبتان نسبۃ الی المتکلم ونسبۃ الی السامع وافہام المتکلم ایاہ مضمونہ… ان قصد المتکلم معنی مطابقاً صحیحا وقصد مع ذالک التعمیۃ علی المخاطب وافہامہ خلاف ما قصدہ فہو صدق بالنسبۃ الیٰ قصدہ، کذب بالنسبۃ الیٰ افہامہ ومن ہذا الباب التوریۃ ولمعاریض وبہذا اطلق علیہا الخلیل اسم الکذب مع انہ الصادق فی خبرہ ولم بخبر الا صدقاً فتأمل (مفتاح دارالسعادہ ج۲ ص۳۹)‘‘ {اگر کوئی اعتراض کرے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (حدیث شفاعت میں) اپنے کلمات کو جو توریہ اور تعریض ہیں۔ جھوٹ کیوں کہا؟ ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کلام کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کلام سے متکلم کا اپنا مقصد اور ارادہ کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ متکلم اس سے اپنے مخاطب کو کیا سمجھانا