فطرت کے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔‘‘
کذبات ابراہیمی کے متعلق ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے جو مرزاقادیانی نے اس عبارت میں تحریر کیا ہے۔ مرزاقادیانی کی ان دونوں تحریروں سے تمام مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ ہم پر بھی کوئی الزام نہیں آتا۔ جناب خلیل (سیدنا ابراہیم) کی پوزیشن بھی صاف رہتی ہے اور حدیث بخاری بھی صحت کے مقام سے نہیں گرتی۔ لیکن افسوس کہ مرزائی جماعت بحث کو الجھانے کے لئے اور خدا کے مقدس انبیاء کو مرزاقادیانی کی سطح پر لانے کے لئے مرزاقادیانی کی تحریرات کو بھی نظرانداز کر دیتی ہے۔
نوٹ: ہمارے مخاطب چونکہ تمام مرزائی (قادیانی اور مرزائی) ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنے الزامی مضمون کو مرزاقادیانی کی تحریرات پر محدود رکھا ہے۔ اب ہم قادیانی جماعت کے مزید اطمینان کے لئے ان کے مصلح موعود اور خلیفہ ثانی جناب میاں بشیرالدین محمود احمد کا ایک فرمان نقل کئے دیتے ہیں۔ موصوف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذب پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’بخاری کی حدیث کو ایک نبی کی عصمت کو محفوظ رکھنے کے لئے رد تو کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اس بارہ میں میرے لئے ایک مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ بتایا ہے کہ بخاری میں جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب سچی (یعنی صحیح) ہیں اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بخاری میں ہی ثلاث کذبات کے الفاظ آتے ہیں۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کا مفہوم کیا ہے۔ جہاں تک کذبات کے لفظ کا سوال ہے۔ اس حد تک یہ بات بالکل صاف ہے کہ کذب کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق ایسی بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ میں جھوٹ نظر آئے۔ لیکن ہو سچی… جس حد تک یہ واقعہ بخاری میں آتا ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ ایسا موقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بات کہی جس کے لوگوں نے ایسے معنی لئے جن کی بناء پر بعد میں انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا کہا۔ مگر وہ غلطی پر تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا اور لوگوں نے خود غلطی کی تھی اور یہ ان لوگوں کا اپنا خیال تھا۔‘‘
(الفضل قادیان ج۳۲ شمارہ ۱۵۰، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۴۴ء ص۱،۲)
ہمیں امید ہے کہ قادیانی جماعت اپنے مسیح موعود اور مصلح موعود کا فرمان ملاحظہ کرنے کے بعد کبھی بھی ہم پر یہ الزام عائد نہ کرے گی۔ کیونکہ ؎
متفق گردید رائے بوعلی بارائے من