اس کا فیصلہ بھی اس معزز ایوان کو کرنا تھا۔ جس کے بیشتر ارکان مرزائیت کے پس منظر، اس کے باطل معتقدات اور ملت اسلامیہ کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں سے ناآشنا تھے اور ان حضرات کی عدم واقفیت سے مرزائی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
ان حالات میں یہ امر بے حد ضروری تھا کہ ارکان اسمبلی کو ان حقائق سے آگاہ کیا جائے جو اس تحریک کے محرک بنے اور ان مفاسد کی نشاندہی کی جائے۔ جن کے تدارک کے لئے ملت اسلامیہ پاکستانیہ نے اس جماعت کو ملت سے جدا کرنے کرانے کی طویل جنگ لڑی۔
اس تقریر کو دلچسپ بنانے کے لئے اس کا موجودہ انداز اختیار کیاگیا اور اسے ممبران اسمبلی میں تقسیم کیاگیا۔
جناب سپیکر اور محترم اراکین ایوان
۱… قومی اسمبلی کے سامنے جو قرارداد بحث کے لئے پیش ہے وہ اپنی اہمیت کے پیش نظر ایسی قرارداد ہے جن کی مثال اس معزز ایوان کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ یہ قرارداد ایک طرف اگر مذہبی اور دینی حیثیت کی حامل ہے تو دوسری طرف اس قرارداد سے ہماری ملکی سلامتی بلکہ مملکت پاکستان کے استحکام اور سلامتی کا گہرا تعلق ہے۔ آج نہ صرف پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں ہماری طرف ہیں اور دنیا یہ معلوم کرنے کے لئے بیتاب ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اس قرارداد کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے۔
میں پورے یقین اور بصیرت کے ساتھ یہ کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس قرارداد پر ہمارے فیصلہ سے نہ صرف پورا عالم اسلام متاثر ہوگا۔ بلکہ ہمارا یہ فیصلہ بین الاقوامی سیاست پر بھی اثر انداز ہوگا۔
اگر ہم اس قرارداد پر صحیح فیصلہ کر سکے تو نہ صرف یہ کہ ہم ملت اسلامیہ کو ایک اضطراب اور تذبذب سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ بلکہ ملت کو وہ روشنی بھی دکھا سکیں گے جس کے نتیجے میں پوری ملت ایک نئے اعتماد اور یقین سے سرشار ہوگی اور نئے ولولے اور عزم کے ساتھ اپنی تمام دینی، ملی، ملکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے قابل ہوسکے گی۔
معزز حضرات: یہ قرارداد جس کا اصل محرک ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آنے والا ایک ناخوشگوار واقعہ تھا۔ جس پر اظہار خیال کرنا اس وقت نہ مناسب ہے نہ مفید۔ اس سلسلہ میں صمدانی کمیشن کی رپورٹ سے اس معزز ایوان کے تمام ممبران باخبر ہیں۔
جناب والا: یہ قرارداد مختلف الفاظ میں ایوان کے سامنے ہے اور اس ایوان کے تمام