اور میاں محمود صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’دوسرے صوبہ جات کے ۲۵ہزار ملالیں۔ پھر ہم ہندوستان بھر میں ۷۵ہزار ہوگئے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۳۴ئ)
ناظرین! یہ دس لاکھ، بیس لاکھ، ۵۰اور ۸۰لاکھ یاد رکھئے اور تازہ حوالہ پڑھئے۔ ۱۰… ’’۳۰؍مارچ ۱۹۴۷ء کو حیدرآباد سندھ میں خلیفہ جی سے اخباری نامہ نگاروں نے پوچھا کہ آپ کی جماعت کی صحیح تعداد کیا ہے تو میاں محمود صاحب جواب دیتے ہیں کہ ہماری صحیح تعداد (دنیا بھر میں) ۴،۵لاکھ کے درمیان ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
۱۱… ’’مئی ۱۹۴۷ء میں خلیفہ جی نے گاندھی جی کو بتایا کہ ہماری جماعت ۵لاکھ ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۴۷ئ)
۱۲… ’’اس سے تین دن بعد خلیفہ صاحب نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ہماری تعداد ۳،۴لاکھ ہے۔‘‘ خلیفہ صاحب! ۳دن میں ڈیڑھ لاکھ کہاں چلے گئے۔
(الفضل قادیانی مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۴۷ئ)
مرزائی دوستو! ہمارا اندازہ تو یہی ہے کہ تم پچاس ہزار کے قریب ہو۔ مگر یہ تمہاری اپنی ہی تحریریں ہیں۔ بتاؤ تم تو بقول خود مرزاقادیانی زندگی میں ۴لاکھ ہوگئے تھے اور پھر بدستور بڑھتے رہے۔ لیکن یہ کیا معمہ ہے کہ تمہاری تعدادبڑھتی گئی۔ مئی ۱۹۴۷ء یعنی مرزاقادیانی کے ۴۰سال بعد بھی وہی ۳،۴لاکھ ہے۔ کیا وجہ کہ ۱۹۰۸ء میں پورے چار لاکھ اور ۱۹۴۷ء میں ۳،۴لاکھ۔ عجیب ترقی ہے۔
خاتمہ
اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
مرزائی دوستو!
گفتگو آئین درویشی نبود
ورنہ باتو ماجرا ہادا شیتم
آپ کا خادم
محمد ابراہیم کمیرپوری
مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۵۰ء
قادیانی اقلیت کیوں؟
قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش تھا اور