مرزاقادیانی کی وفات پر ان کے خسر کا بیان
مرزاقادیانی کے خسر میرناصر نواب مرزاقادیانی کی وفات کا چشم دید حالات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’ابتداء میں حضرت صاحب جب کہیں سفر میں تشریف لے جاتے تو مجھے گھر کی حفاظت اور قادیان کی خدمت کے لئے چھوڑ جاتے اور آخرزمانہ میں جب کبھی سفر کرتے اور گھروالے ہمراہ ہوتے تو بندہ بھی ہمرکاب ہوتا تھا۔ چنانچہ جب آپ لاہور تشریف لے گئے۔ جس سفر میں اپ کو سفر آخرت پیش آیا تب بھی بندہ آپ کے ہمراہ تھا اور اس شام کی سیر میں بھی شریک تھا۔ جس کے دوسرے روز قبل از دوپہر حضور نے انتقال فرمایا۔ حضرت مرزاصاحب جس رات بیمار ہوئے میں اس رات اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا۔ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میر صاحب مجھے تو وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ صبح دس بجے آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ (حیات ناصر ص۱۴)
ناظرین! یہ ہے مرزاقادیانی اور مولانا ثناء اﷲ کا آخری فیصلہ اور مرزاقادیانی کی اس دعا کا نتیجہ جس کی قبولیت کا انہیں الہام ہوچکا تھا اور یہ ہے اس آسمانی مقدمے کا فیصلہ جس کا فیصلہ خود خداتعالیٰ نے کرنا تھا اور جس کی وجہ سے مولانا ثناء اﷲ سے سلسلہ مباہلہ ختم کردیا گیا تھا۔
نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ مرزاقادیانی نے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل وار بمقام لاہور اسی ہیضہ سے وفات پائی۔ جو انہوں نے کاذب کے لئے بارگاہ الٰہی سے مانگا تھا بقول پنجابی شاعر ؎مرض ہیضے تھیں ہو لاچار
مرزا مویا منگل وار
مرزائیو! ہمارا اعتقاد ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ دعا ضرور قبول ہوئی اور صادق اور کاذب کا فیصلہ بیّن طریق سے ظاہر ہوا۔ سنئے ہمارا شروع سے یہی عقیدہ ہے کہ ؎
گفت مرزا مر ثناء اﷲ را
مردہ دل ہر کہ ملعون خداست
خود روانہ شد بسوئے نیستی
بود او ملعون لیکن گفت راست