کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان سے ایک اشتہار دیا۔ جس میں محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔ نہ کہ مباہلہ سے۔‘‘ پھر نو مئی کے پرچہ میں اس اشتہار کو دعا کہتے ہوئے مولوی صاحب کے لئے توبہ کی شرط لگائی۔ حالانکہ مباہلہ میں کوئی شرط نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ستمبر۱۹۰۷ء میں مرزا قادیانی کا لڑکا مبارک احمد فوت ہوگیا۔ تو مولوی صاحب نے مرزا قادیانی پر اعتراض کیا کہ آپ نے دعا میں کہا تھا کہ جھوٹے پر موت آئے یا موت کے برابر کوئی تکلیف توجوان بیٹے کا مرجانا بھی موت کے برابر تکلیف ہے۔ لہٰذا آپ جھوٹے تو مرزاقادیانی نے ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء کو بذریعہ اشتہار مولوی صاحب جو اب دیا کہ ہمارا لڑکا اس مباہلہ میں شامل نہیں۔
ناظرین! ان تصریحات کو ذہن نشین کیجئے اور مرزاقادیانی کے انتقال کا حال سنئے۔
مرزاقادیانی کی وفات ہیضہ سے، بیوی اور صاحبزادے کا بیان
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ مسیح موعود جب آخری بیماری میں بیمار ہوئے اور حالت نازک ہوگئی تو میں نے گھبرا کر کہا کہ یا اﷲ کیا ہونے والا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار یعنی مرزابشیر احمد ایم۔اے مختصر بیان کرتا ہے کہ حضرت صاحب ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو اچھے بھلے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پہلا دست آپ کو کھانا کھانے کے بعد آیا تھا۔ اس کے بعد ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ سوگئے اور میں بھی سوگئی۔ کچھ دیر بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ ایک دو دفعہ رفع حاجت کے لئے پاخانہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ چونکہ آپ کو بہت ضعف ہوچکا تھا۔ اس لئے آپ میری ہی چارپائی پر لیٹ گئے اور میں دبانے لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر دست آیا۔ مگر آپ چارپائی کے پاس ہی فارغ ہوئے۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو قے آئی۔ جب اٹھنے لگے تو ضعف کی وجہ سے چارپائی پر گر گئے اور حالت دگرگوں ہوگئی اور فرمایا کہ مولوی نورالدین کو بلاؤ اور محمود کو جگاؤ۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۹،۱۰، روایت نمبر۱۲ ملخص)
’’مولوی نورالدین، خواجہ کمال الدین اور ڈاکٹر یعقوب بیگ کو بلایا گیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ مجھے اسہال کا دورہ ہوگیا ہے۔ آپ کوئی دوائی تجویز کریں۔ علاج شروع کیاگیا۔ چونکہ حالت نازک ہوچکی تھی۔ اس لئے ہم پاس ہی ٹھہرے رہے اور علاج باقاعدہ ہوتا رہا۔ مگر پھر نبض واپس نہ آئی۔ یہاں تک کہ سوادس بجے صبح مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس کی روح محبوب حقیقی سے جا ملی۔‘‘ (ضمیمہ الحکم مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۰۸ئ)