اور حضرت مولانا ثناء اﷲؒ نے ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی مرزاقادیانی سے کامل چالیس سال بعد سرزمین پاکستان میں بمقام سرگودھا انتقال فرمایا۔ اﷲ اکبر!
اعتراض اور جواب
احمدی حضرات اسی الٰہی فیصلہ کو مکدر اور مشکوک کرنے کے لئے بہت کچھ کہا کرتے ہیں۔ ان تمام اعتراضات کا مفصل جواب ہم اپنی کتاب ’’ثناء اﷲ اور مرزا‘‘ میں دے چکے ہیں۔ جو ۱۹۴۷ء میں لکھی گئی تھی اور عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہونے والی ہے۱؎۔
لیکن ان کے ایک فضول مگر زبان زد عوام اعتراض کا مختصر جواب اس جگہ دینا ضروری ہے۔ مرزائی کہا کرتے تھے کہ مولوی صاحب نے ۲۶؍اپریل ۱۹۰۷ء کے پرچہ اہل حدیث میں فیصلہ کی اس تجویز کو غیرمعقول کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔
۱…
جواباً گذارش ہے کہ اشتہار مذکورہ مرزاقادیانی نے خدا کے حضور فریاد اور دعا کے طور پر پیش کیا تھا اور خود کو مظلوم اور مولوی صاحب کو ظالم کہتے ہوئے خداتعالیٰ سے صادق کی زندگی میں کاذب کی موت مانگی تھی اور یہ اشتہار محض دعا کے طور پر تھا۔ اس میں مولوی صاحب کی منظوری نامنظوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۲…
بقول شما اگر منظوری ضروری تھی تو اﷲتعالیٰ نے مولوی صاحب کی منظوری سے پہلے ہی قبولیت کا وعدہ کیوں کر لیا۔ ذرا دوچار دن صبر کر لیتا۔
۳…
اور مرزاقادیانی نے ۲۶؍اپریل کے بعد اس دعا کو منسوخ کیوں نہ کردیا۔ تاکہ کوئی جھگڑے کی صورت باقی نہ رہے اور کسی کی اتفاقی موت سے دوسرا فریق ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔۴…
اور ۱۳؍جون کو حقیقت الوحی کے مطالبہ کے جواب میں اس دعا کو بحال رکھتے ہوئے مباہلہ کو غیرضروری کیوں قرار دیا۔
۵…
اور پھر ۹؍مئی کے پرچہ میں اس دعا کو بحال رکھتے ہوئے توبہ کی شرط کیوں لگائی۔
۶…
پھر نومبر ۱۹۰۷ء میں مبارک احمد کی وفات پر مولوی صاحب کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ کیوں نہ کہا کہ تم نے یہ دعا منظور ہی نہ کی تھی۔ اب اعتراض کیوں کرتے ہو؟
۱؎ افسوس کہ اس کتاب کا مسودہ ۱۹۵۰ء میں سیلاب کی نذر ہوگیا۔ اب دوبارہ زیر ترتیب ہے۔