اس وقت اتنی دلیری ہے کہ انعام مقرر ہو رہا ہے۔ الہام شائع کیا جارہا ہے کہ ہرگز نہیں آئیں گے۔ مگر جب حریف کو مدمقابل پایا تو حواس باختہ ہوکر فرماتے ہیں کہ آپ چوروں کی طرح آگئے ہیں۔ میں توانجام آتھم مطبوعہ ۱۸۹۶ء میں خداتعالیٰ سے عہد کرچکا ہوں کہ مباحثہ نہیں کروں گا۔ مرزاقادیانی سے کون پوچھے کہ اگر آپ ۱۸۹۶ء میں واقعی مباحثات ترک کرنے کا عہد کر چکے تھے تو آپ نے مولوی صاحب کو نومبر ۱۹۰۲ء میں قادیان آنے کی دعوت ہی کیوں دی تھی۔ شاید بھول کر بلالیا ہوگا۔ خیال ہوگا کہ کس نے آنا ہے۔ چلو الہام کی صداقت کا پروپیگنڈا ہی کریں گے۔ مگر قربان جائیں مولوی صاحب پر کہ بمصداق دروغ گورابخانہ باید رسانید! قادیان جانے سے نہ رکے اورا تنا مایوسانہ جواب ملنے پر بھی مایوس نہ ہوئے۔ بلکہ اتمام حجت کے لئے جوابی رقعہ بھی خدمت مرزاقادیانی میں پیش کردیا۔
مولوی صاحب کی طرف سے جواب الجواب
الحمد ﷲ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۰ اما بعد!‘‘ از خاکسار (ثناء اﷲ)
بخدمت مرزاغلام احمد صاحب! آپ کا طولانی رقعہ ملا۔ مگر افسوس کہ جو کچھ تمام ملک کو گمان تھا وہی ظاہر ہوا۔
جناب والا! جب کہ میں حسب دعوت اعجاز احمدی حاضر ہوا ہوں اور اپنے پہلے رقعہ میں اس کا حوالہ بھی دے چکا ہوں تو پھر اتنی طول کلامی جو آپ نے کی ہے۔ بجز عادت کے اور کیا معنی رکھتی ہے۔ جناب من! کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آپ اعجاز احمدی میں اس عاجز کو تحقیق حق کے لئے بلاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میری پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرو تو مبلغ سوروپیہ فی پیش گوئی انعام لو اور اس رقعہ میں مجھے ایک دوسطریں لکھنے پر پابندی کرتے ہیں اور اپنے لئے تین گھنٹہ تجویز کرنے ’’تلک اذا قسمۃ ضیزیٰ‘‘ کیا یہ انصاف ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی تحقیق کا طریقہ ہے کہ میں تو دوسطریں لکھوں اور آپ تین گھنٹہ فرماتے جائیں۔ اس سے تو صاف سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مجھے دعوت دے کر پچھتا رہے ہیں اور اپنی دعوت سے انکاری اور تحقیق سے اعراض کر رہے ہیں۔ جس کے لئے آپ نے مجھے دردولت پر حاضر ہونے کی دعوت دی تھی۔ اس سے عمدہ تو میں امرتسر میں بیٹھے ہی کر سکتا تھا اور کرچکا ہوں۔ مگر چونکہ میں اپنے سفر کی صعوبت یاد کر کے بلانیل ومرام واپس جانا کسی صورت مناسب نہیں جانتا۔ اس لئے میں آپ کی بے انصافی بھی قبول کرتا ہوں کہ میں دو تین سطر ہی لکھوں گا اور آپ بلاشک تین گھنٹے تقریر کریں۔ مگر اتنی اصلاح ہوگی کہ میں دو تین