سطریں مجمع میں خود پڑھ کر سناؤں گا اور ہر گھنٹہ کے بعد ۵منٹ حددس منٹ آپ کے جواب کی نسبت رائے ظاہر کروں گا اور چونکہ مجمع آپ پسند نہیں کرتے۔ اس لئے فریقین کے پچیس پچیس آدمی ہوںگے۔ آپ میرا بلااطلاع آنا چوروں کی طرح فرماتے ہیں۔ کیا مہمانوں کی خاطر اسی کو کہتے ہیں۔ اطلاع دینا آپ نے شرط نہیں کیا تھا۔ علاوہ اس کے آپ کو آسمانی اطلاع بھی ہوگئی ہوگی۔ آپ جو مضمون سنائیں گے وہ اسی وقت مجھے دے دیا جائے گا۔ کاروائی آج ہی شروع کر دی جائے۔ میں آپ کا جواب آنے پر مختصر سوال بھیج دوں گا۔ باقی لعنتوں کے متعلق وہی عرض ہے جو حدیث میں موجود ہے۔ (ابوالوفا ثناء اﷲ مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ئ)
ناظرین! غور فرمائیے کہ مولوی صاحب نے اس مایوس کن رقعہ کا جو سراسربے انصافی اور دفع الوقتی پہ مبنی تھا۔ کیسا معقول جواب دیا۔ معمولی سی اصلاح کے ساتھ مرزاقادیانی کی تمام شرائط منظور کر لیں۔ مقصد صرف یہ تھا کہ سفر کر کے آیا ہوں۔ افہام تفہیم کے بغیر نہ جاؤں۔ چونکہ مرزاقادیانی کو اپنی کمزوری کا پوری طرح احساس تھا اور بحث کے نتائج کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس لئے مولوی صاحب کی معمولی ترمیم بھی منظور نہ کی اور مریدوں سے آخری جواب لکھوادیا۔
مرزاقادیانی کی طرف سے جواب الجواب ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ حامداً ومصلیا‘‘ مولوی ثناء اﷲ آپ کا رقعہ حضرت امام الزمان، مسیح موعود، مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت مبارک میں سنادیا گیا۔ چونکہ مضامین اس کے محض عناد اور تعصب آمیز تھے۔ جوطلب حق سے بعد المشرقین کی دوری اس سے صاف ظاہر ہے۔ لہٰذا حضرت اقدس کی طرف سے یہی جواب آپ کو کافی ہے کہ آپ کو تحقیق حق منظور نہیں ہے۔ حضرت انجام آتھم اور آپ کے جواب میں مرقوم خط میں قسم کھا چکے ہیں اور اﷲتعالیٰ سے عہد کرچکے ہیں کہ مباحثہ کی شان سے مخالفین کے ساتھ کوئی تقریر نہ کریں گے اور خلاف معاہدہ الٰہی کوئی مامور من اﷲ کیوں کر کسی فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے؟ لہٰذا آپ کی اصلاح جو بطرز شان مناظرہ آپ نے لکھی ہے وہ ہرگز منظور نہیں۔
خاکسار محمداحسن بحکم حضرت امام زمان مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء
گواہ شد: محمد سرور وابوسعید عفی عنہ۔
الغرض جب مرزاقادیانی کسی طرح بھی اپنی ضد سے نہ ہٹے اور مولوی صاحب کی کوئی بات ماننے پر تیار نہ ہوئے تو مولوی صاحب قادیان میں تردید مرزاپر لیکچر دے کر ناکام مگر کامیاب واپس آئے۔ (یعنی اتمام حجت کے بعد)