خداتعالیٰ فیصلہ کر دے گا۔ سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ بذریعہ تحریر جو دوسطر سے زیادہ نہ ہو ایک ایک گھنٹہ بعد اپنے شبہات پیش کرتے جائیں اور میں وہ وسوسہ دور کرتا جاؤں گا۔ ایسے صدہا آدمی آتے ہیں اور اپنے وساوس دور کرالیتے ہیں۔ ایک بھلا مانس اور شریف آدمی ضرور اس بات کو پسند کرے گا۔ کیونکہ اس کو تو اپنے وسواس دور کرانے ہیں اور کچھ غرض نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خدا سے نہیں ڈرتے ان کی تو نیتیں اور ہوتی ہیں۔ بالآخر اس غرض کے لئے کہ اگر آپ شرافت اور ایمان رکھتے ہیں تو قادیان سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جاویں۔ دو قسموں کا ذکر کرتا ہوں۔
اوّل… چونکہ انجام آتھم میں خداتعالیٰ سے قطعی عہد کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کروںگا۔ اس وقت پھر اس عہد کے مطابق قسم کھاتا ہوں کہ میں زبانی بات آپ کی کوئی نہ سنوں گا۔ صرف آپ کو یہ موقعہ دیا جائے گا کہ آپ اوّل ایک اعتراض جو آپ کے خیال میں سب سے بڑا اعتراض کسی پیش گوئی پر ہو ایک سطر یا دوسطر حد تین سطر لکھ کر پیش کریں۔ یہ تو میری طرف سے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جاؤں گا اور کوئی زبانی بات نہیں سنوں گا اور آپ کی مجال نہ ہوگی کہ آپ لفظ بھی زبانی بول سکیں اور آپ کو خداتعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ سچے دل سے آئے ہیں تو ان شرائط کے پابند ہو جائیے اور ناحق فتنہ فساد میں عمر ضائع نہ کریں۔ اب ہم دونوں میں سے ان دونوں قسموں سے جو شخص انحراف کرے گا۔ اس پر خدا کی لعنت ہے اور خدا کرے وہ اس لعنت کا پھل بھی اسی زندگی میں دیکھ لے۔ سو اب میں دیکھوں گا کہ آپ سنت نبوی کے مطابق اس عہد مؤکد بقسم کے آج ہی ایک اعتراض دو تین سطر کا لکھ کر بھیج دیں اور پھر وقت مقرر کر کے مسجد میں مجمع کیا جائے گا اور آپ کو بلایا جائے گا اور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وساوس دور کر دئیے جائیں گے۔‘‘
(الہامات مرزا ص۱۱۶،۱۱۹، الفضل قادیان مورخہ ۳۰؍جولائی۱۹۴۶ئ)
ناظرین! ہم نے اتنا طویل خط کہ آپ پڑھتے پڑھتے بھی اکتا گئے ہوں گے۔ محض اس لئے نقل کیا ہے کہ کسی قادیانی کو جائے اعتراض نہ ہو۔ دیکھئے ایک دو سطرے مضمون سے کتنے صفحات پر کر دئیے ہیں۔ ایک ایک بات کو چار چار پانچ پانچ بار دہرایا جارہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو قادیان میں دیکھ کر مرزاقادیانی کچھ ایسے کھوگئے ہیں کہ اپنے آپ کی بھی خبر نہیں رہی۔ گھبراہٹ میں جواب لکھ رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا لکھا جاچکا ہے اور کیا لکھنا ہے۔ پھر لطف یہ کہ کم فرصتی کا عذر بھی ساتھ ہے۔
دوستو! دیکھئے کیسا مایوسانہ جواب ہے۔ خود تحقیق حق یعنی بحث کے لئے بلایا ہے اور