خط وکتابت
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
بخدمت مرزاغلام احمد صاحب رئیس قادیان! خاکسار آپ کی دعوت مندرجہ اعجاز احمدی ص۲۳ کے مطابق اس وقت قادیان میں حاضر ہے۔ جناب کی دعوت قبول کرنے میں آج تک رمضان شریف مانع رہا۔ ورنہ اتنی دیر نہ ہوتی۔ میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے جناب سے کوئی ذاتی خصومت اور عناد نہیں۔ چونکہ آپ بقول خود ایسے عہدہ جلیلہ پر ممتاز اور مامور ہیں جو تمام بنی نوع کی ہدایت کے لئے عموماً اور مجھ جیسے مخلصین کے لئے خصوصاً ہے۔ اس لئے مجھے قوی امید ہے کہ آپ میری تفہیم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے اور حسب وعدہ مجھے اجازت بخشیں گے کہ میں مجمع میں آپ کی پیش گوئیوں کی نسبت اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ میں مکرر آپ کو اپنے اخلاص اور صعوبت سفر کی طرف توجہ دلاکر اسی عہدہ جلیلہ کا واسطہ دے کر گذارش کرتا ہوں کہ آپ مجھے ضرور ہی موقع دیں۔
(راقم ابوالوفا ثناء اﷲ مورخہ ۱۰جنوری ۱۹۰۳ئ، بوقت سوابجے دن)
غور فرمائیے! خط کے ایک ایک لفظ سے اخلاص ٹپک رہا ہے۔ قسمیں کھائی جاتی ہیں کہ مجھے آپ سے کوئی عناد نہیں۔ محض تحقیق حق کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ برائے مہربانی مجھے سمجھائیے۔ میں آپ کے بلانے پر آیا ہوں۔ وعدہ پورا کیجئے۔ مگر آگے سے جواب کس قدر سخت اور مایوس کن آتا ہے۔ مرزاقادیانی کا خط بہت طویل ہے۔ لیکن ہم اسے من وعن درج کئے دیتے ہیں۔ تاکہ آپ جواب کے علاوہ مرزاقادیانی کی دماغی اور قلبی پریشانی کا اندازہ لگاسکیں۔
مرزاقادیانی کی طرف سے جواب
بسم اﷲ الرحیم الرحیم!
’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ از طرف عائذ بااﷲ غلام احمد عافااﷲ‘‘
بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب! آپ کا رقعہ پہنچا۔ اگر آپ لوگوں کی صدق دل سے یہ نیت ہو کہ اپنے شکوک وشبہات پیش گوئیوں کی نسبت یا ان کے ساتھ اور امور کی نسبت جو دعویٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رفع کراویں۔ تو یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اور اگرچہ میں کئی سال ہوگئے۔ اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ میں اس گروہ مخالف سے ہرگز مباحثات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس کا نتیجہ بجز گندی گالیوں کے اور اوباشانہ کلمات سننے کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ مگر