دوسری حیرت انگیز چالاکی، کیا مرزاقادیانی کو اپنے الہام پر ایمان تھا؟
مرزاقادیانی اپنے الہام اور ٹیکہ کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں تو اپنے الہام پر کامل یقین ہے کہ جب افسران گورنمنٹ ہمیں ٹیکہ لگانے آئیں گے تو ہم اپنا الہام ہی پیش کر دیں گے۔ میرے نزدیک تو اس الہام کی موجودگی میں ٹیکہ لگانا گناہ ہے۔ کیونکہ اس طرح تو ثابت ہوگا کہ ہمارا ایمان اور بھروسہ ٹیکہ پر ہے۔ اﷲتعالیٰ کے کرم اور وعدہ پر نہیں۔‘‘
(ملفوظات مرزا حصہ چہارم ص۲۵۶)
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر وہ الہام حفاظت از طاعون کی موجودگی میں ٹیکہ وغیرہ دنیاوی اور مادی احتیاط سے کام لیں گے تو الہام الٰہی سے بے یقین ثابت ہوںگے۔ ناظرین مندرجہ عبارت کو ذہن نشین رکھئے اور صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے کا مندرجہ ذیل بیان پڑھئے کہ: ’’طاعون کے ایام میں حضرت مسیح موعود فینائل لوٹے میں ہل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔ نیز گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے۔ تاکہ ضرر رساں جراثیم مرجاویں اور آپ نے بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی۔ جس میں کوئلے اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور تمام دروازے بند کر دئیے جاتے تھے۔ اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد کمرہ کھولا جاتا تو کمرہ اندر بھٹی کی طرح تپتا ہوتا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۹)
اور سنئے: حضور کو بٹیر کا گوشت بہت پسند تھا۔ مگر جب سے پنجاب میں طاعون کا زور ہوا۔ بٹیر کھانا چھوڑ دیا۔ بلکہ منع کیاکرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعونی مادہ ہوتا ہے۔ اور سنئے: وبائی ایام میں حضرت صاحب اتنی احتیاط فرماتے کہ اگر کسی خط کو جو وبا والے شہر سے آتا، چھوتے تو ہاتھ ضرور دھولیتے۔ (الفضل مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ئ)
مرزائی دوستو! اگر ٹیکہ لگانے سے الہام الٰہی پر ایمان نہیں رہتا تو یہ احتیاتیں کرنے والا کون ہوا؟ فرق صرف یہ ہے کہ ٹیکہ لگوانے سے خطرہ تھا کہ لوگ اعتراض کریں گے اور یہ احتیاطیں اندرون خانہ ہوتی تھیں۔ جہاں سب کے سب جی حضورئے ہوتے تھے۔ مگر ؎
نہاں ماند کجا رازے کزد سازند محفلہا