آبادی (اس وقت) ۲۸۰۰افراد پر مشتمل تھی۔ اس میں ۳۱۳آدمی طاعون سے مرے ہیں۔ اوسط تعداد یومیہ ۵،۶تھی اور نامی گرامی مرزائی اس طاعون کی نذر ہوئے۔
ناظرین! غور فرمائیے جس گاؤں کا ساتواں حصہ طاعون کی نظر ہوجائے ۔اس کی تباہی بربادی میں کیا شبہ؟ اور الہام کے من گھڑت افتراء اور جھوٹ ہونے میں کیا کلام؟
زمانہ طاعون میں مرزاقادیانی کے دجل وفریب کی حیرت انگیزیاں
توسیع مکان کا چندہ
ناظرین! ہم حیران ہیں کہ مرزاقادیانی کے دجل وفریب کا اظہار کن لفظوں میں کریں ؎
آنکھ نے جو کچھ ہے دیکھا لب پہ آسکتا نہیں
امید ہے کہ آپ بھی مندرجہ ذیل دو واقعات پڑھ کر ہماری تصدیق فرمائیں گے۔ آپ پڑھ آئے ہیں کہ مرزاقادیانی کو الہام ہوا تھا کہ میں تیرے گھر والوں کی حفاظت کروں گا اور مرزاقادیانی نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ گھر سے مراد خاک وخشت کا گھر نہیں۔ بلکہ روحانی گھر ہے اورمیری تعلیم پر صدق دل سے عمل کرنے والے جہاں کہیں بھی ہوں اس گھر میں شامل ہیں۔ اس عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل حوالہ غور سے پڑھئے۔
’’چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں۔ میں سخت تنگی واقع ہے اور آپ لوگ سن ہی چکے ہیں کہ اﷲ جل شانہ نے لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چار دیواری میں رہتے ہیں حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے… ہمارے ساتھ والا مکان اس وقت قیمتاً مل رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ مکان دوہزار تک مل سکتا ہے۔ چونکہ خطرہ ہے کہ طاعون کا زمانہ قریب ہے اور یہ گھر وحی الٰہی کی خوشخبری کی رو سے اس طوفان میں بطور کشتی کے ہوگا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ آئندہ کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے اور نہ عورت کی۔ اس لئے اس کشتی کی توسیع کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا اس کی وسعت میں کوشش کرنی چاہئے۔ (یعنی چندہ دینا چاہئے)‘‘
(کشتی نوح ص۷۶، خزائن ج۱۹ ص۷۶ ملخص)
ناظرین! کیا اب بھی مرزاقادیانی کے دنیادار ار دنیا پرست ہونے میں کوئی شبہ باقی ہے۔ ایک طرف تو گھر سے مراد روحانی گھر بتاتے ہیں اور دوسری طرف خاک وخشت والے مکان کی وسعت کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں۔