مبتلا ہوجائے۔ آگے جاکر پھرکہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تنہا صادق کے طفیل قادیان کو جس میں اقسام اقسام کے لوگ رہتے ہیں۔ اپنی خاص حفاظت میں لے لیا ہے۔
امام صاحب اس مضمون کی اخیر میں کس زور وشور سے فرماتے ہیں کہ: ’’اے نیچریو اور اے بے باک زندگی کی چال چلنے والو اور اے مذہب اور خدا کو پرانے زمانہ کا مشغلہ کہنے والو اور اے یورپ کے عقل اور سائنس کو خدا کے لاکھوں راست بازوں کے سچے فلسفہ پر ترجیح دینے والو اور اے خدا کی صفت تکلم اور پیش گوئیوں پر ہنسی اڑانے والو اور اپنی ہواؤ ہوس کے پرستارو! بولو اور سوچ کر بولو۔ کیا تمہارے نزدیک مسیح موعود کے اس دعویٰ اور پیش گوئی میں خدا کی ہستی پر قرآن کریم کی حقیقت پر خدا کے متصف بصفات کاملہ ہونے پر یعنی ازل سے ابد تک متکلم ہونے پر چمکتی ہوئی دلیل نہیں۔‘‘ (خاکسار عبدالکریم از قادیان مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۲ئ)
گھر کی حفاظت کا الہام
ناظرین! اس طول طویل مضمون میں کیسی وضاحت سے دعویٰ کیاگیا ہے کہ اگر دوسرے شہروں میں طاعون نہ آئے تو بھی الہام جھوٹا اور اگر قادیان میں آجائے تو بھی غلط۔ نیز کس قدر صاف الفاظ میں اعلان کیاگیا ہے کہ مرزاقادیانی کی برکت سے قادیان کے دہریہ مشرک اور بے دین بھی اس عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ الہام میں بستی کا ذکر ہے۔ جماعت کا نہیں۔ اسی سلسلہ میں ہم نتیجہ بیان کرنے سے پیشتر اگر مرزاقادیانی کا ایک دوسرا الہام بھی سناویں تو غیرمناسب نہ ہوگا۔ مرزاقادیانی کو اسی سلسلہ میں ایک اور الہام ہوا تھا کہ: ’’انی احافظک کل من فی الدار‘‘ یعنی میں ہر اس شخص کی حفاظت کروں گا جو اس گھر میں رہتا ہے۔ مرزاقادیانی اس گھر کی تشریح میں فرماتے ہیں۔
گھر کامعنی
’’ہر ایک جوتیرے گھر کی چار دیواری میں ہے۔ میں اس کو بچاؤں گا۔ اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک وخشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں۔ میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۰، خزائن ج۱۹ ص۱۰)
ہاں اس جگہ مرزاقادیانی نے نہایت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے یہ الفاظ بھی درج فرمادئیے کہ وعدہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو سچے دل سے بیعت کر چکے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی مرزائی مر بھی جائے تو کہہ دیا جائے کہ سچے دل سے ایمان نہیں لایا تھا بلکہ منافق تھا۔