’’اگر آنحضرتﷺ کے بعد ان معنوں کی رو سے نبوت کا انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ امت مکالمات ومخاطبات الٰہیہ سے بے نصیب ہے۔ کیونکہ جس کے ہاتھ پر امور غیبیہ ظاہر ہوںگے۔ ضروری ہے کہ وہ آیت ’’فلا یظہر علیٰ غیبیہ‘‘ کے مطابق نبی کہلائے۔ اگر خداتعالیٰ سے خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ اسے کس نام سے پکارا جائے۔ اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت میں اظہار غیب نہیں۔ مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب کے ہیں اور نبی کا معنی ہے خدا سے خبر پاکر پیش گوئی کرنے والا۔ پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیرھ سو پیش گوئیاں خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوئیں تو میں نبی یا رسول کے نام سے کیوں انکار کر سکتا ہوں اور جب خداتعالیٰ نے میرے یہ نام رکھے ہیں تو میں اسے کیوں کر رد کروں۔‘‘
آگے چل کر فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے جس جس جگہ نبوت سے انکار کیا ہے۔ صرف ان معنوں میں کیا ہے کہ میں مستقل طور پر نبی نہیں اور نہ ہی مستقل شریعت لایا ہوں۔ مگر ان معنوں کی رو سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خداتعالیٰ سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اور میرے اس قسل کا معنی ’’من نیستم رسول نیاورہ ام‘‘ کتاب صرف یہ ہے کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۲تا۴۴۲)
لاہوری مرزائی غور فرماویں
ناظرین! یہ تھا مرزاقادیانی کا اعلان نبوت۔ غور فرمائیے ایک وہ زمانہ تھا کہ مرزاقادیانی نے اعلان کیا کہ میری کتابوں میں جہاں کہیں نبی کا لفظ آگیا ہے۔ اس کو کاٹا ہوا تصور کرو اور اس کی جگہ لفظ محدث لکھ لو اور ایک یہ زمانہ ہے کہ لفظ محدث سے انکار کرتے ہوئے نبوت کا دعویٰ ہے۔ صرف شریعت کی نفی ہے۔ بہرحال مرزاقادیانی کے مرید اس اشتہار کے بعد مرزاقادیانی کو کھلم کھلا نبی کہنے لگ گئے۔ حتیٰ کہ بعد میں مرزاقادیانی کی نسبت کا انکار کرنے والے مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے امیر جماعت مرزائیہ لاہور بھی اپنے رسالہ ریویو کے ہر نمبر میں مرزاقادیانی کی صداقت کو منہاج نبوت پر پرکھتے اور مسلمانوں کو نبی ماننے کی دعوت دینے لگے اور اس زمانہ کے سینکڑوں حوالہ جات ایسے ہیں جن سے مولوی صاحب کا یہی عقیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لئے کتاب تبدیلی عقیدہ مولوی محمد علی ملاحظہ فرمائیں)