ہم مرزاقادیانی کا صدق وکذب عام اخلاقی معیار کے اصولوں پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ پس ناظرین غور سے سنیں کہ جماعت انبیاء کا متفقہ طرز عمل یہ رہا ہے کہ انہوں نے خدا کا پیغام بلاکم وکاست لوگوں تک پہنچایا۔ خواہ یہ پیغام سخت الفاظ میں تھا یا نرم میں۔ بہرحال پیغمبروں نے فریضہ رسالت کو ’’بلغ ما انزل‘‘ کے مطابق ادا کیا۔ لیکن اپنی ذات کے لئے کسی پیغمبر میں جذبہ انتقام پیدا نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں نہ کسی پیغمبر نے اپنے مخالفین کو ذاتی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے لعنت کی نہ گالیاں دیں اور نہ شرافت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال فرمائے۔ بلکہ انبیاء کو لغت پر اتنا عبور ہوتا ہے کہ وہ رنج ومسرت کے جذبات کے اظہار کے لئے بہتر سے بہتر الفاظ مہیا فرما لیتے ہیں۔
مگر افسوس کہ مرزاقادیانی مناسب زبان کے استعمال میں ناکام ثابت ہوئے۔ انہیں اپنے جذبات پر بھی قابو حاصل نہ تھا۔ وہ جب کسی پر ناراض ہوتے تو تہذیب اور اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گالیوں پر اترآتے ہیں اور گالیاں بھی بازاری۔ مثلاً حرامزادہ، کنجری کا بیٹا، ولد الحرام، بدکار، سور، کتا وغیرہ۔
ناظرین! اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔
بدزبانی کے چند نمونے
مرزاقادیانی آئینہ کمالات اسلام میں اپنے لٹریچر اور دعاوی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
۱…
’’ہر مسلمان میری تصنیفات کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا اور میری دعاوی کی تصدیق کرتا ہوا مجھے قبول کرتا ہے۔ مگر ’’ذریۃ البغایا‘‘ یعنی بازاری عورتوںکی اولاد۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۴۳۵، خزائن ج۵ ص۵۴۷)
۲…
اپنی کتاب نجم الہدیٰ میں اپنے دشمنوں پر اظہار غیظ وغضب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’میرے دشمن جنگلوں کے سور اور ان کی عورتیں کتیاں ہیں۔‘‘
(نجم الہدیٰ ص۳۵، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
۳…
مخالف علماء کے اعتراضات سے لاجواب ہوکر فرماتے ہیں کہ: ’’اے بدذات فرقہ مولویاں، مردار خور مولویو اور گندی روحو۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۹، خزائن ج۱۱ ص۲۱،۲۶۸،۳۰۵)
۴…
حضرت میاں صاحب دہلویؒ کو رئیس الدجالین اور مخبوط الحواس کے قبیح الفاظ سے یاد فرماتے ہیں۔ (انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)