ختم نبوت اور نزول مسیح کا اشکال
ناظرین! بیان مذکورہ بالا سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی ان دنوں ختم نبوت کے قائل اور محدثیت کے مدعی ہیں۔ اگرچہ مرزاقادیانی ختم نبوت کے پردہ میں وفات مسیح کا اعلان کرتے ہیں۔ حالانکہ ختم نبوت اور نزول مسیح میں کوئی تعارض نہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ نزول ثانی کے زمانہ میں نبی بھی ہوںگے اور امتی بھی۔ (صحیح مسلم ج۱ ص۸۷، مکتبہ دار القرآن ملتان)
اور یہ امر ایسا ہی ہے جیسے ایک مملکت کا بادشاہ دوسری مملکت میں جاکر اپنے ملک کا بادشاہ ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنی بادشاہی کا اعلان نہیں کرتا۔ بلکہ دوسرے ملک کے آئین کی پابندی اور احترام بھی کرتا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نبی ہونے کے باوجود نبوت محمدی کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنی نبوت کا اعلان نہ کریں گے۔ بلکہ خود شریعت محمدی پر عامل اور اسی کے مبلغ اور داعی ہوںگے۔
علمائے اسلام نے اس اشکال کو مرزاقادیانی کے جنم سے صدیوں پیشتر ہی حل فرمادیا تھا۔ صاحب تفسیر کشاف فرماتے ہیں کہ ختم نبوت کا معنی یہ ہے کہ اپ کے بعد کوئی نبوت سے سرفراز نہ ہوگا۔ باقی رہے حضرت عیسیٰ تو وہ نبوت آنحضرتﷺ سے پہلے حاصل کر چکے ہیں۔
(تفسیر الکشاف للزمخشری ج۳ ص۵۴۴)
علاوہ ازیں اگر مرزاقادیانی نبوت محمدی کی چادر اوڑھ کر آجائیں تو ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول ثانی میں کیا اشکال ہوسکتا ہے۔
دوبارہ دعویٰ نبوت اور محدثیت کا انکار
بہرحال مرزاقادیانی اس زمانہ میں اکثر نبوت کے انکاری اور محدثیت کے مدعی تھے۔ لیکن ۵؍نومبر ۱۹۰۰ء کو آپ نے اپنی نبوت کی حقیقت ذہن نشین کرانے کے لئے مریدوں کے نام ایک غلطی کا ازالہ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا۔ اشتہار کیا ہے؟ ایک سطر کی تردید دوسری سطر میں۔ دوسری کی تیسری میں۔ لیکن آپ نے محدثیت سے ترقی کرتے ہوئے یہ فقرہ خوب زور سے درج فرمایا: ’’میں نے نبوت فنافی الرسول ہوکر حاصل کی ہے اور مجھے نبوت محمدی کی چادر اوڑھائی گئی ہے۔ اس لئے میرا آنا عین محمد کا آنا ہے۔ اس لئے میری نبوت سے ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ نبی کا معنی ہے خدا سے خبر پانے والا۔ پس جہاں (اور جس پر) یہ معنی صادق آئیں گے وہاں نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا بھی شرط ہے۔ کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو غیب مصطفی کی خبر حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘