مناسب ہے کہ لاہور جو صدر مقام ہے۔ اس میں صادق اور کاذب کی شناخت کے لئے ایک جلسہ منعقد کیا جائے اور پیر صاحب اس طرح پر میرے ساتھ مباحثہ کر لیں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی صورت نکال لیں اور اس میں سے چالیس آیات لیکر فریقین پہلے یہ دعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں جو شخص تیرے نزدیک راستی پرہے اس کو اس جلسہ میں اس سورت کے حقائق معارف فصیح وبلیغ عربی میں لکھنے کی توفیق عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر اور جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے اس سے یہ توفیق چھین لے۔
اس کے بعد شرائط کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’پہلی شرط یہ ہوگی کہ فریقین کے پاس کوئی کتاب نہ ہوگی اور نہ کوئی مددگار ہوگا۔ دوسری شرط یہ ہوگی کہ تفسیر نویسی کی مہلت سات گھنٹہ ہوگی اور زانو بزانو ہوکر لکھنا ہوگا۔ فریقین کو ایک دوسرے کی تلاشی لینے کا حق ہوگا۔ (تاکوئی کتاب کاغذ نوٹ بک وغیرہ پاس نہ ہو) نیز اس تفسیر کو اسی مجلس میں گواہوں کے روبرو ختم کرنا ہوگا۔‘‘
اس سے بعد طریق فیصلہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’تفسیر لکھ لینے کے بعد تین اہل علم (جو ہم دونوں کے مرید نہ ہوں) کے سپرد کر دی جائے اور وہ حلفاً اپنی رائے ظاہر کریں گے کہ دونوں سے کس کی تفسیر اچھی ہے۔ پس اگر انہوں نے پیر صاحب کی تفسیر کو اچھا کہہ دیا اور فیصلہ کر دیا کہ ان کی تفسیر اور عربی مجھ سے اچھی ہے یا میرے برابر ہے تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اپنی تمام کتابیں جلادوں گا اور اپنے تئیں مردود اور مخذول سمجھوں گا۔ پھر اس اشتہار کے آخر میں فرماتے ہیں۔ ضروری ہے کہ مقام مباحثہ لاہور ہو اور ضروری ہے کہ پیر صاحب مجھے ایک ہفتہ پہلے اطلاع دیں اور اگر میں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں بھی کاذب سمجھا جاؤں گا اور اگر ضرورت ہوئی تو پولیس کے افسر بلالئے جائیں گے۔ ’’ولعنۃ اﷲ علیٰ من تخلف وابیٰ‘‘ یعنی پیچھے رہنے والے اور انکار کرنے والے پر خدا کی لعنت۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۹ ص۶۷،۶۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۲۷)
ناظرین! غور فرمائیے کہ اس اشتہار میں کس زور شور سے چیلنج کیاگیا اور مقام لاہور کو ازخود تجویز کیا۔ بلکہ ضروری قرار دیا ہے اور بوقت ضرورت پولیس کا ذکر بھی کردیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر میری تفسیر ناقص یا برابر رہی، پھر بھی میں کذاب مردود اور اگر حاضر نہ ہوا تو بھی کذاب اور مردود اور پھر کس شان سے لکھا ہے کہ پیچھے رہنے والے اور انکار کرنے والے پر خدا کی لعنت۔