مرزاقادیانی کی ساری تدبیریں ناکام ہوئیں۔ ۱۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو یہ نکاح دھوم دھام سے ہوا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۰، خزائن ج۵ ص۲۸۶) اور مرزاقادیانی ناکام رقیب کی طرح ہاتھ ملتے اور خون جگر پیتے رہ گئے۔
اب مرزاقادیانی اپنے رقیب کی موت کا انتظار کرنے لگے۔ جس کی آخری تاریخ ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ء تھی۔ مگر آج کل کرتے مدت مذکورہ پوری ہوگئی اور مرزاسلطان محمد جوں کے توں جوان تندرست خوش وخرم رہے۔
اتفاق یہ ہوا کہ اسی دوران میں مرزاحمد بیگ والد محمدی بیگم ۳۱؍ستمبر ۱۸۹۲ء یعنی نکاح سے قریباً ۵ماہ بعد انتقال کر گیا۔ حالانکہ مرزاقادیانی کے الہام کے مطابق اسے سلطان محمد کے بعد مرنا چاہئے تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۵۶،۵۷۳، خزائن ج۵ ص۲۸۶)
تقدیر مبرم
اس کی موت سے جو بالکل اتفاقیہ تھی۔ مرزاقادیانی بہت خوش ہوئے اور سلطان محمد کی موت کی انتظار کرنے لگے۔ مگر جب وہ نہ مرا تو کہہ دیا کہ وہ اپنے خسر کی موت سے ڈر گیا۔ اس لئے مہلت پاگیا۔ (انجام آتھم ص۲۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹)
۱… ’’لیکن میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ تم اس کی انتظار کرو۔ اگر وہ میری زندگی میں مر گیا تو میں سچا اور اگر نہ مرا تو میں جھوٹا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۹، خزائن ج۱۱ ص۳۱)
۲… پھر اسی (انجام آتھم ص۱۹۸، خزائن ج۱۱ ص۲۳۳) پر نہایت زور شور سے لکھا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس نے محمد مصطفی کو بھیجا یہ خبر حق اور تقدیر مبرم ہے۔ میری زندگی میں ہوکر رہے گی اور میں اسی الہام کو اپنے صدق کذب کا معیار ٹھہراتا ہوں۔
بدسے بدتر
۳… پھر (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) پر فرمایا کہ اگر یہ نکاح نہ ہوا تو میں ہر ایک بدسے بدتر ٹھہروں گا۔
۴… پھر اسی نکاح کو نبی کریم کی پیش گوئی بھی قرار دیا۔
(انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
اور سنئے۔ مرزاقادیانی مریدوں کو تسلی دینے کے لئے فرماتے ہیں کہ: