ہیں تو آپ کی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں۔ مرزامحمود جواب دیتے ہیں کہ دعا تو مرزاقادیانی کی بھی قبول نہیں ہوتی تھی۔ اگر محبوب الٰہی ہونے کا یہی معیار ہے تو پھر آپ مرزاقادیانی کو کیوں مانتے ہیں۔ پھر مرزاقادیانی کی غیرمقبول بلکہ مردود دعا کی مثال دیتے ہوئے ۲۰؍جولائی ۱۹۴۰ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن تھا تو کتنے کرب واضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی اتنا سخت نہیں دیکھا حضرت صاحب ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور بزرگان سلسلہ مسجد میں اور نوجوان خلیفہ اوّل کی دوکان میں اور عورتیں بھی بین کرتیں اور چیخیں مارتی تھیں۔ جن کی آواز سو سو گز پر جاتی تھی اور ہر ایک زبان پر یہی فقرہ تھا کہ یا اﷲ آتھم مر جائے۔ یا اﷲ آتھم مر جائے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۴۰ئ، الفضل ۱۵؍اکتوبر ۱۹۴۲ئ)
مگر آتھم نہ مرا، کئی مرزائی عیسائی ہوئے
ناظرین! اتنی بددعائیں وظیفوں اور ماتم کے باوجود آتھم نہ مرا۔ بلکہ ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو امرتسر وغیرہ میں اس کا دھوم دھام سے جلوس نکالا گیا اور مرزاقادیانی کی شان میں بڑے مزیدار قصیدے پڑھے گئے۔ مرزاقادیانی کے خیال کے مطابق کئی مرزائی عیسائی ہوگئے۔ جن کے مرتد ہونے کا گناہ مرزاقادیانی کی گردن پر ہے۔ (انجام آتھم ص۱۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً ملخص)
مرزائی دوستو! ہم حیران ہیں کہ سب کچھ ہوا۔ مگر آپ کے مرزاقادیانی پھر سچے کے سچے۔ قربان جائیں آپ کی اندھی عقیدت پر۔
مرزائی اعتراض اور اس کا جواب، کیا آتھم نے رجوع کیا؟
مرزاقادیانی نے اس خفت کو مٹانے کے لئے بڑے زور شور سے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ آتھم ڈرگیا۔ لہٰذا بچ گیا۔ مگر ہم حیران ہیں کہ پیش گوئی میں ڈرنے اور بچنے کا ذکر کہاں تھا۔ صرف حق کی طرف رجوع کی شرط تھی۔ جس کی تشریح مرزاقادیانی نے خود (کرامات الصادقین ص۴۰، خزائن ج۷ ص۸۲) میں فرمائی تھی۔ ’’کہ اگر اسلام لائے گا تو بچے گا وگرنہ مر جائے گا۔‘‘ مرزائی دوستو! کیا آتھم اسلام لے آیا تھا۔
(پیش گوئی مذکورہ پر دیگر سوال وجواب اس کتاب کے موضوع سے خارج ہیں۔ کسی دوسری جگہ درج کئے جائیں گے)