۲…
آپ کی ایمانی استقامت کے بارے میں الہام ہوا ہے کہ اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء یعنی جڑ زمین میں مضبوط اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ’’وذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘
۳…
آپ میں آثار سعادت اور رشد کے ظاہر ہیں اور آپ حقیقت میں ہیں اور آپ میں صدق وصفا اور اخلاص کا جوہر موجود ہے۔ جس کو یہ چیزیں مل جائیں اس کو استقامت بھی ساتھ ہی عطا کی جاتی ہے۔
۴…
الحمدﷲ کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ انصار اس عاجز کا بنایا ہے اور اس ناچیز کو آپ کے وجود پر فخر ہے۔
۵…
جتنی محبت آپ کو اس عاجز سے ہے وہی محبت اور تعلق اس عاجز کو آپ سے ہے۔
۶…
اگرچہ میں بیمار ہوں۔ مگر آپ کی بیماری کا حال معلوم کر کے مجھے اپنی بیماری بھول گئی اور بہت تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
۷…
آپ میرے اوّل دوست ہیں۔ جن کے دل میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے میری محبت ڈالی اور جو سفر کی تکلیف اٹھا کر محض لللّٰہ سب سے پہلے قادیان آئے۔ میں آپ کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ (ازالہ اوہام ص۷۹۰، خزائن ج۳ ص۵۲۷)
مرزاقادیانی کے اس مخلص اور جانثار مرید کو اس موقعہ پر خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہوئی اور ۹سال کی گمراہی کے بعد اﷲتعالیٰ کی توفیق سے مرزاقادیانی سے علیحدہ ہوگئے۔
علیحدگی کے وجوہات
میرصاحب کیوں علیحدہ ہوئے؟ مرزاقادیانی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ’’میر صاحب کی علیحدگی پر بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کے حق میں تو الہام ہوا تھا کہ: ’’اصلہا ثابت وفرعہا فی السمائ‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کی طرف اشارہ ہے اور یہ ظاہر امر ہے کہ کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی تو کفار میں بھی ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے یہ الہام اس زمانہ کا ہے۔ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی اور زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ثابت قدم رہوں گا۔ سو خداتعالیٰ نے ان کی اس وقت کی حالت کی خبر دے دی۔ ضروری نہیں تھا کہ ہمیشہ ایسے ہی رہتے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ میر صاحب عارضی علیحدگی کے بعد پھر اسی اخلاص کے ساتھ واپس آجائیں۔ (تاریخ بتاتی ہے) کہ بہتوں نے راست بازوںکو (بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے) چھوڑ دیا اور