پھر دو بجے کے بعد ہمیں بلاکر جواب سنایا اور پرچہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی میرا پرچہ گھر لے جائیے۔ چھ دن یہ مناظرہ جاری رہا اور فریقین نے تین تین پرچے لکھے۔ ابھی اس بحث کے چار پرچے باقی تھے اور اس کے بعد دوسرے موضوع یعنی مسیحیت مرزا پر مناظرہ ہونا تھا۔ لیکن مرزاقادیانی اپنا پہلو کمزور اور آثار شکست کو محسوس کرتے ہوئے بحث کو درمیان ہی چھوڑ کر اپنے خسر کی بیماری کا بہانہ کرتے ہوئے دہلی سے لدھیانہ بھاگ گئے۔ ہر چند انہیں مباحثہ پورا کرنے پرزور دیا گیا اور شرائط مذکورہ کے تحت ان کے فرار کو کذب کی دلیل بھی کہاگیا۔ لیکن مرزاقادیانی نے ایک نہ مانی اور رات کی گاڑی دہلی سے چلتے بنے۔
ناظرین! یہ تھا مرزاقادیانی کی شیخی اور تعلی کا حسرت ناک انجام۔ (الحق الصریح ص۲)
مرزاقادیانی کے فرار کی اصلی وجہ
مصنف رئیس قادیان، مرزاقادیانی کے فرار کی وجہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’مرزاقادیانی مدعی مسیحیت تھے اور علماء کی طرف سے ہمیشہ مطالبہ ہوتا تھا کہ اپنے مسیح ہونے کا ثبوت دو۔ مرزاقادیانی نے اس مصیبت سے بچنے کے لئے مسئلہ حیات وفات مسیح کو آڑ بنارکھا تھا۔ اس مناظرہ میں جب اسی سد سکندری کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا تو خیال آیا کہ اب میرے اصلی قلعہ پر گولہ باری اور میری ذات شریف زیربحث آئے گی اور میری مسیحیت کا قلعہ چشم زون میں پاش پاش ہو جائے گا تو مرزاقادیانی کے لئے بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ غنیم کے قلعہ فتح کرنے سے پیشتر ہی راہ فرار اختیار کر جائیں۔‘‘
ناظرین! ہم چاہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے فرار کی رسید مرزائی لٹریچر سے پیش کر دیں۔ تاکہ سند رہے اور مرزائیوں کو انکار کی جرأت نہ ہو۔ پس سنئے:
مرزابشیر احمد قادیانی ایم۔اے سیرۃ المہدی جلددوم میں مرزاقادیانی کے قیام دہلی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’جامع مسجد والے قصہ کے تین چار دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہی مکان پر مولوی محمد بشیر صاحب بھوپال کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا۔ جس میں باہم یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ فریقین کے پانچ پانچ پرچے ہوں گے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ مولوی صاحب کی طرف سے باربار وہی دلیلیں دہرائی جارہی ہیں تو آپ نے فریق مخالف کو یہ بات جتا کر کہ اب مناظرہ کو جاری رکھنا تصنیع اوقات ہے۔ تین پرچوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا اور فریق مخالف کے طعن وتمسخر کی کوئی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ انبیاء کو دنیاوی شہرت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۹۰،۹۱)