مرزاقادیانی نے مولوی صاحب کی پیش کردہ ترمیم کو منظور کر لیا اور مندرجہ ذیل شرائط طے ہوئے۔
۱…
مناظرہ سرکاری انتظام کے تحت ہو۔
۲…
مناظرہ تحریری ہو۔ ہر دو فریق مجلس میں بیٹھ کر پرچہ لکھیں۔
۳…
پہلی بحث مسئلہ حیات مسیح پر ہو۔ اگر حیات ثابت ہو جائے تو مرزاقادیانی دعویٰ مسیحیت سے دستبردار ہو جائیں اور اگر وفات ثابت ہو تو مرزاقادیانی کا اصل دعویٰ مسیح موعود کا ثابت نہیں ہوگا اور پھر مرزاقادیانی کے مسیح موعود ہونے پر بحث کی جائے گی۔
۴…
فریقین سے جو فریق قبل از تصفیہ مباھثہ سے روگرداں ہوگا۔ اس کا تحریز (فرار) سمجھا جائے گا۔
جب یہ شرائط طے ہوگئے تو مولانا بشیر صاحب بھوپال سے ۱۶؍ربیع الاوّل کو دہلی پہنچے اور اپنی آمد کی اطلاع مرزاقادیانی کو دی۔ لیکن افسوس کہ مرزاقادیانی نے طے شدہ شرائط کے برعکس نئی نئی شرائط پیش کر دیں۔ مثلاً:
۱…
حیات مسیح پر مدعی مولوی صاحب ہوں۔
۲…
بحث میرے مکان پر ہو۔
۳…
جلسہ عام نہ ہو بلکہ مولوی صاحب کے ساتھ صرف دس آدمی ہوں۔ ان دس آدمیوں میں مولانا بٹالوی اور مولوی عبدالمجید صاحب نہ ہوں۔
۴…
فریقین کے پرچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو۔ ان نئی شرطوں کے پیش نظر مولانا کے ساتھیوں کا ارادہ تھا کہ نئی شرائط مسترد کر دی جائیں۔ مگر مولوی صاحب نے مرزاقادیانی پر حجت پوری کرنے کے لئے یہ تمام شرائط منظور فرمالیں۔
۱۹؍ربیع الاوّل کو مولوی صاحب مرزاقادیانی کے مکان پر پہنچ گئے اور حیات مسیح پر پہلا پرچہ پانچ دلائل پر مشتمل تحریر فرمایا اور مرزاقادیانی کے حوالہ کر دیا۔ مرزاقادیانی نے شرائط کے مطابق اس مجلس میں جواب لکھے سے انکار کر دیا۔ ہر چند کہ انہیں مجلس مذکورہ میں جواب لکھنے پر مجبور کیاگیا۔ مگر مرزاقادیانی نہ مانے اور کہا کہ آپ جائیے میں جواب لکھ رکھوں گا۔ آپ کل صبح دس بجے آکر جوابی پرچہ لے لینا مولانا نے بحث کو آخر تک پہنچانے کے لئے یہ عذر بھی منظور کر لیا۔ دوسرے دن دس بجے جب مولانا، مرزاقادیانی کے مکان پر گئے تو مرزاقادیانی اندر سے ہی تشریف نہ لائے اور پیغام بھیج دیا کہ ابھی جواب تیار نہیں ہوا۔ آپ جائیے جب جواب تیار ہوگا آپ کو بلا لیا جائے گا۔