سید صاحب کے علاوہ دہلی کے تمام نامور علماء نے مرزاقادیانی کی تمام شرائط منظور کرتے ہوئے مرزاقادیانی کو بذریعہ اشتہار مناظرہ کے لئے للکارا۔ مگر مرزاقادیانی یہی کہتے رہے کہ پہلے پولیس کا انتظام کرو۔
مرزاقادیانی ابھی یونہی لیت ولعل کر رہے تھے کہ مولانا بٹالوی بھی دہلی پہنچ گئے۔ مرزاقادیانی نے علماء کے متواتر چیلنج سے تنگ آکر ۶؍اکتوبر کو پھر اشتہار شائع کیا کہ میں تو صرف سید صاحب یا ان کے شاگرد بٹالوی صاحب سے مناظرہ کروں گا۔ مطلب صرف یہ تھا کہ کسی نامی گرامی پہلوان سے ٹکر لیں۔
بدنام گرہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
کا مسئلہ پیش نظر تھا۔ اس کے جواب میں مولانا بٹالوی نے ۷؍اکتوبر کو اشتہار شائع کیا کہ مرزاقادیانی! ۱۱؍اکتوبر ۱۸۹۱ء بوقت ۹بجے تیار ہو کر چاندنی محل میں تشریف لے آئیے۔ ہم دونوں آپ سے مناظرہ کرنے کو وہاں موجود ہوںگے۔ ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں اور آپ کی تمام شرائط ہمیں منظور ہیں۔ مرزاقادیانی نے اشتہار کا کوئی جواب نہ دیا۔ جس سے یہی سمجھا گیا کہ وہ وقت مقررہ پر میدان مناظرہ میں آجائیں گے۔ کیونکہ ان کی تمام شرائط منظور کی جاچکی ہیں۔ مولانا بٹالوی نے ۱۱؍تاریخ کو چاندنی محل میں جلسہ کا تمام انتظام کرادیا اور مرزاقادیانی کو پیغام بھیجا کہ انتظامات مکمل ہیں۔ تشریف لائیے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی تشریف نہ لے گئے اور جلسہ برخاست ہوا۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے کہا کہ میں مولانا بٹالوی سے مناظرہ نہیں کرنا چاہتا، میں تو صرف میاں صاحب سے مناظرہ کروں گا۔
مرزاقادیانی کی اس آخری ضد کو پورا کرنے کے لئے اسی تاریخ کو دوبارہ چاندنی محل میں جلسہ قائم ہوا اور میاں صاحب نے مرزاقادیانی کو خود چٹھی لکھی کہ میں بذات خود آپ سے بحث کرنے کو آمادہ ہوں۔ لیکن مرزاقادیانی نے یہ عذر کر کے کہ شہر میں میرے خلاف جوش پھیلا ہوا ہے۔ اس لئے بغیر سرکاری انتظام کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔
مرزاقادیانی کی طرف سے ایک اور اشتہار
اس کے بعد ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو مرزاقادیانی نے ایک اور اشتہار دیا جس میں حضرت میاں صاحب کی شان میں بازاری الفاظ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’آپ میرے ساتھ مناظرہ کر لیں یا میرے دلائل وفات مسیح سن کر حلف اٹھا لیجئے کہ یہ دلائل غلط ہیں۔ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ میاں صاحب نے اس تہذیب سے گرے ہوئے اور گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہار سے متاثر