غیروں کا اقتدار قائم کرنے کے عوض میں جو سرٹیفکیٹ حاصل ہوئے۔ وہ سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاسند رہیں اور وقت ضرورت کام آئیں۔
مباحثہ دہلی
مناظرہ لدھیانہ میں مولانا بٹالوی نے مرزاقادیانی پر سخت اعتراض کئے۔ مرزاقادیانی یہاں کی خفت مٹانے کے لئے دہلی پہنچے۔ دہلی چونکہ ان دنوں علماء اور صوفیاء کا مرکز تھا۔ خیال آیا کہ وہاں چل کر قسمت آزمائی کریں۔ مرزاقادیانی نے دہلی پہنچ کر ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار دیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
’’مجھے مثیل مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ ہے… میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ تسلیم کرتا ہوں اور (احادیث میں) جس آنے والے مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے۔ اپنے حق میں یقینی اور قطعی اعتقاد رکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں ملہم ہوں، محدث ہوں، مامور اور چودھویں صدی کا مجدد ہوں۔ چونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شہر کے علماء مثلاً (حضرت) سید نذیر حسین صاحب اور مولانا عبدالحق صاحب حقانی اس عاجز کو کافر اور کاذب خیال کرتے ہیں۔ اس لئے میں ان دونوں علماء کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ میرے ساتھ بحث کر لیں۔
۱…
مولوی صاحبان سرکاری انتظام کرائیں۔ جو ایک انگریز افسر کے زیرنگرانی ہو۔ کیونکہ مجھے خطرہ ہے۔
۲…
بحث تحریری ہوگی۔ ہر فریق اپنے ہاتھ سے پرچہ لکھ کر دستخط کر کے پیش کرے۔
۳…
بحث حیات وفات مسیح پر ہوگی۔
میں اس اشتہار کے جواب کے لئے ایک ہفتہ انتظار کروں گا۔ اگر مولوی صاحبان کو مذکورہ شرائط کے ساتھ مناظرہ منظور ہو تو وہ جس جگہ چاہیں میں حاضر ہو جاؤں گا۔ خاکسار غلام احمد قادیانی حال وارد دہلی بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۴،۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۱تا۲۳۶ ملخص)
اشتہار مذکورہ کا جواب
اشتہار مذکورہ شائع ہونے کے بعد سید صاحب نے بذات خود مرزاقادیانی کے شبہات کو دور کرنا چاہا اور ۵؍اکتوبر کو مرزاقادیانی کو لکھا کہ: ’’آپ بے تکلف میرے مکان پر آجائیے اور اپنے شکوک پیش کر کے اطمینان کر لیجئے۔ مرزاقادیانی نے جواب دیا کہ میں تو انگریز افسر کی غیر موجودگی میں کوئی بات نہیں کروں گا۔‘‘