کے رسول اور اس کے نبی ہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے تنبیہ کیجئے اور نماز ختم ہونے کے بعد جب مرزاقادیانی جانے لگا تو عبدالکریم نے اسے روکا۔ اس پر مرزاقادیانی نے کہا: ’’یہی میرا دین اور دعویٰ ہے۔‘‘ پھر وہ گھر میں چلا گیا اور وہاں ہنگامہ ہونے لگا۔ جس میں عبدالکریم اور کچھ لوگ ملوث تھے جو شور مچا رہے تھے۔ شور سن کر مرزاقادیانی گھر سے باہر نکلا اور کہا اے ایمان والو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (سیرۃ المہدی)
اس کا دعویٰ کہ نبوت کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا
مرزاقادیانی نے واقعی کہا تھا کہ نبوت کا دروازہ ہنوز کھلا ہوا تھا۔ اس کا اظہار اس کے لڑکے محمود احمد نے جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا اپنی کتاب حقیقت النبوت کے ص۲۲۸ پر اس طرح کیا تھا: ’’روز روشن میں آفتاب کی طرح یہ واضح ہے کہ باب نبوت ابھی تک کھلا ہوا ہے۔‘‘ اور (انوار خلافت ص۶۲) پر وہ کہتا ہے: ’’حقیقتاً انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) کہا کہ خدا کے خزانے خالی ہوگئے ہیں اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی صحیح قدر وقیمت کی سمجھ نہیں ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بجائے صرف ایک کے ہزاروں نبی آئیں گے۔‘‘ اسی کتاب کے (صفحہ۶۵) پر وہ کہتا ہے: ’’اگر کوئی شخص میری گردن کے دونوں طرف تیز تلواریں رکھ دے اور مجھ سے یہ کہنے کے لئے کہے کہ محمدؐ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں یقینا کہوں گا کہ وہ کاذب ہے۔ کیونکہ ایسا نہ صرف ممکن بلکہ قطعی ہے کہ ان کے بعد نبی آئیں گے۔‘‘ (رسالہ تعلیم کے ص۱۴) پر خود مرزاغلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ: ’’یہ ذرا بھی نہ سوچنا کہ وحی زمانہ پارینہ کا قصہ بن چکی ہے۔ جس کا آج کل کوئی وجود نہیں ہے۔ یا یہ کہ روح القدس کا نزول صرف پرانے زمانے میں ہی ہوتا تھا۔ آج کل نہیں۔ یقینا اور حقیقتاً میں کہتا ہوں کہ ہر ایک دروازہ بند ہوسکتا ہے۔ مگر روح القدس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔‘‘
(رسالہ تعلیم ص۹) پر وہ کہتا ہے: ’’یہ وہ ہی خدائے واحد تھا جس نے مجھ پر وحی نازل کی اور میری خاطر عظیم نشانیاں ظاہر کیں۔ وہ جس نے مجھے عہد حاضر کا مسیح موعود بنایا۔ اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں۔ نہ زمین پر نہ آسمان پر اور جو اس پر ایمان نہیں لائے گا اس کے حصہ میں بدقسمتی اور محرومیت آئے گی۔ مجھ پر حقیقت میں وحی نازل ہوتی ہے جو آفتاب سے زیادہ واضح اور صریح ہے۔‘‘اس کا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسولؐ ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
مرزاغلام احمد قادیانی (مکتوب احمد ص۷،۸، خزائن ج۱۱ ص۷۷) پر کہتا ہے: ’’اس کی