اور اسی لئے سقوط بغداد اور زوال خلافت پر جب پوری امت مسلمہ سوگ منارہی تھی۔ قادیانی غدار اس سقوط وزوال پر انگریزی فتح کی خوشی میں چراغاں کر رہے اور جشن منارہے تھے۔
اﷲدتہ اور اس کے ہمنوا مرزائیو!
اب دام مکر اور کسی جا بچھائیےبس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
رہا معاملہ مولانا محمد حسین بٹالوی کے دو ایڈرسو۱؎ں کا تو ہم اس سلسلہ میں متنبی قادیانی کی امت کی طرح کسی قسم کی تاویل وتحریف کے چکر میں پڑنے کی بجائے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر کسی فرد یا چند افراد نے ایسا کیا تو غلط کیا۔ ہم انہیں نہ معصوم سمجھتے ہیں اور نہ صاحب شریعت کہ ان کی ہر بات ہمارے لئے حجت وسند ہو۔ قوم میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے غلطیوں اور لغزشوں کا صدور ہوتا ہے۔ ان سے مجموعی طور پر قوم کے دامن پر دھبہ نہیں لگ سکتا اور نہ ہی ان کی بناء پر کسی گروہ کو مطعون کیا جا سکتا ہے۔
۱؎ انہی حوالوں کو لے کر کراچی کے محمد ایوب قادری نے اہل حدیث کے خلاف دل کے پھپھولے جلائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ احباب دیوبند میں سے کچھ غیرذمہ دار لوگ موقع بے موقع اہل حدیث کو اپنی کرم فرمائیوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ جس کی بناء پر دوسری جانب سے بھی کچھ تندوتیز باتیں نکل جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں زیادہ افسوس اپنے بھائی مولانا محمد تقی عثمانی پر ہے جو حضرت مولانا مفتی محمد شفیع کے فرزند ہیں کہ انہوں نے کس طرح اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ اور تلخ وتیز مضمون اپنے مؤقر رسالے ’’البلاغ‘‘ میں شائع کیا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں اسلامی قوتیں غیراسلامی نظام کی حامی طاقتوں کے خلاف صف آراء تھیں اور جس کے نتیجے میں دوسری طرف سے بھی ناخوشگوار انداز میں دیوبندی اکابر کو معرض بحث میں لانا پڑا۔ اگرچہ سب سے پہلے دوستوں نے ہم سے اس موضوع پر قلم اٹھانے کو کہا اور بعض نے بڑی حد تک مجبور بھی کیا۔ لیکن ہم باوجود اس مضمون کی تلخی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کوفت اور اذیت کے اور مواد کی فراہمی کے اسے ٹال گئے کہ یہ وقت اس قسم کی بحثوں کے لئے قطعاً موزوں نہیں۔ اگرچہ ہم کسی بھی وقت کو اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان خصوصاً منافرت کے لئے مناسب خیال نہیں کرتے۔ محمد ایوب صاحب سے کوئی گلہ نہیں۔ ان کی قادریت ان سے جو بھی کہلوائے، لکھوائے اور کروائے۔ لیکن حضرت مفتی صاحب کی نگرانی اور مولانا عثمانی کی مسئولیت میں اس قسم کی دل آزاری کاکوئی جواب نہیں۔