ہمارے اسلاف تو انگریز کے خلاف جہاد وقتال میں مصروف اور ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے میں مشغول رہے اور مرزائیت کے اب وجد انگریز کی خاطر جاسوسی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مرزاغلام احمد اقراری ہے: ’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیرخواہی کے لئے ایسا نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں… لہٰذا یہ نقشہ اس غرض کے لئے تجویز کیاگیا تاکہ اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں جو ایسی باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں… ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی ان نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی۔ ایسے لوگوں کے نام مع پتہ ونشان یہ ہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷،۲۲۸)
شاعر رسولؐ مولانا ظفر علی خان نے ان کے بارے میں کیا خوب کہا تھا ؎
حقیقت قادیاں کی پوچھ لیجئے ابن جوزی سے
نکو کاری کے پردے میں سیہ کاری کا حلیہ ہے
یہ وہ تلبیس ہے ابلیس کو خود ناز ہے جس پر
مسلمانوں کو اس رندے نے اچھی طرح چھیلا ہے
پلی ہے مغربی تہذیب کے آغوش عشرت میں
نبوت بھی رسیلی ہے پیمبر بھی رسیلا ہے
نصاریٰ کی رضا جوئی ہے مقصد اس نبوت کا
اور ابطال جہاد انجاح مقصد کا وسیلہ ہے
اور جس طرح جہاد اور مسئلہ جہاد توارثاً اہل حدیث کو منتقل ہوتا رہا ہے۔ انگریز کی غلامی کا جوا بھی مستقل طور پر مرزائیت کے گلے میں پڑا رہا اور ہنوز پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ اہل حدیث قیام پاکستان تک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم جہاد رہے اور ان کی مفصل تاریخ کے لئے ملاحظہ کیجئے۔ مولانا مہر کی کتاب ’’سرگزشت مجاہدین‘‘ اور آخری جہاد جس میں انہوں نے حصہ لیا جہاد کشمیر ہے۔ بالکل اسی طرح مرزائی آخری وقت تک انگریز کے قدموں میں لپٹے اور اس کے دامن سے چمٹے رہے اور اب تک اس کی محبت سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ مرزامحمود انگریز ایجنٹی پر فخر کرتے رہے اور اب بھی امت مرزائیہ انگریزی عدل وانصاف کے گن گاتی ہے۔ کیونکہ نہ ہو کہ مرزاغلام احمد نے ’’اسے اپنی تلوار اور اپنی ڈھال قرار دیا تھا۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۷؍دسمبر۱۹۱۸ئ، ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ئ)