کیا مرزائی مرزاغلام احمد قادیانی کے بارہ میں اس بات کے کہنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ جبکہ وہ مرزائیت کا بانی اور موسس ہی نہیں بلکہ اس کا نبی، رسول بھی ہے۔
نہ جانے اﷲدتہ مرزائی کو ایک اہل حدیث رسالہ کے مدیر کی اتنی موٹی بات کیوں سمجھ میں نہیں آسکی یا مرزائیت نے اس کی رہی سہی عقل کا جو پہلے بھی اس کے پاس کم تھی خاتمہ کر دیا ہے۔ اور پھر مولانا محمد حسین بٹالوی کے متعلق ماسوا اس کے کہ انہوں نے انگریز گورنر کے پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے، لوکل گورنمنٹ کے اجرائ، چیفس کالج کے قائم کرنے، پبلک لائبریری کے بنانے اور طلبہ کو وظائف دینے پر اس کا شکریہ ادا کیا ہے اور کون سی چیز ہے جس پر انہیں مطعون کیا جاسکتا ہے؟ کیا مرزا قادیانی کی، انگریز کی خاطر، مسلمانوں کے خلاف جاسوسیاں اور انگریز کی خاطر مسلمہ اسلامی عقائد میں تحریف وتغیر اور مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹوں اور اخلاف اور امت کی انگریز کی راہ میں قربانیاں اور اس کی فتح اور مسلمانوں کی سلطنتوں کے سقوط پر جشن ہائے طرب اور اس کے اشارہ پر نبی اکرم سرور دوعالمﷺ کی خاتمیت نبوت پر دست درازیاں اور مولانا محمد حسین بٹالوی کی ایک انگریز گورنر کی چند اچھائیوں پر تعریف ایک برابر ہے؟ اگرچہ ہم اس انگریز دشمنی کی بناء پر جو ہمیں اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے۔ اس کو بھی پسندیدہ خیال نہیں کرتے۔
لیکن جان مرزا! یہ تو بتاؤ کہ تمہاری بے غیرتی کو اس وقت کیا ہوا۔ جب تمہارا خائن باپ یہ کہہ رہا تھا کہ: ’’ہم حکومت کی ایسی خدمت کرتے ہیں کہ اس کے پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے ملازم بھی کیا کریں گے۔‘‘ (مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ یکم؍اپریل ۱۹۳۰ئ)
اور: ’’ہم نے ملک معظم کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے ملک کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔ احرار کی تقریریں پڑھو، ان کو زیادہ غصہ اسی بات پر ہے کہ ہم حکومت کے جھولی چک ہیں۔ وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم اسی وجہ سے ان کے مخالف ہیں۔ کانگریس سے ہمیشہ یہی جنگ رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ ہم غلام ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ میاں محمود، مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ یکم؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
اور: ’’بہت سے افسر ایسے گذرے جو فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے حسن سلوک سے پچاس ہزار یا لاکھ کی ایسی جماعت (قادیانی) ہندوستان میں چھوڑی ہے جو اپنی جانیں قربان کر کے بھی برطانیہ سے تعاون کرے گی۔‘‘ (مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۵ئ)
اور: ’’ہم نے ابتدائے سلسلہ سے گورنمنٹ کی وفاداری کی۔ ہم ہمیشہ یہ فخرکرتے رہے کہ ہم ملک معظم کی وفاداری رعایا ہیں۔ کئی ٹوکرے خطوط کے ہمارے پاس ایسے ہیں جو میرے نام پر یا میری جماعت کے سیکرٹریوں یا افراد جماعت کے نام ہیں۔ جن میں گورنمنٹ نے ہماری جماعت کی وفاداری کی تعریف کی ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت کے پاس کئی ٹوکرے تمغوں کے