اور پھر انہیں مجاہدوں کو ان کی انگریز دشمنی کی سزا یہ دی گئی کہ: ’’رے دن شا مجسٹریٹ مقدمہ سازش انبالہ کی تجویز پر کہ صادق پور کا احاطہ پٹنہ میونسپلٹی کو دیا جائے اور تمام مکانات زمین کے برابر کر دئیے جائیں اور وہاں ایک بازار بنایا جائے۔ کیونکہ میرے خیال میں اس سے زیادہ اچھا مصرف اس زمین کا نہیں ہوسکتا۔ (میمورنڈم ص۲۶،۲۷) اور پھر نہ صرف عید کے دن ان کے مکانات منہدم کر دئیے گئے۔ بلکہ ان کے بزرگوں کی قبریں تک بھی کھدوا دی گئیں۔‘‘
(تذکرہ صادقہ ص۱۷۹)
مولانا یحییٰ علی کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو گھر والوں کو لکھا: ’’آج شب سرور کائناتﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔‘‘
’’وبشر الصبرین الذین اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون۰ اولئک علیہم صلوات من ربہم ورحمۃ واولئک ہم المہتدون‘‘
(ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص۱۵۷،۱۵۸)
در کفے جام شریعت درکفے سندان عشق
ہر ہوسنا کے نداند جام دسنداں باختن
اہل حدیث، ہند کی انگریز حکومت کی نگاہوں میں کس طرح کھٹکتے تھے۔ اس کا اندازہ صرف اس ایک چھوٹی سی عبارت سے کیا جاسکتا ہے۔ جسے مولانا عبدالرحیم صادق پوری، مولانا احمد اﷲ کے حالات میں رقم کرتے ہیں۔ وہ پٹنہ کے انگریز کمشنر مسٹر ٹیلر اور اس کی اسلام اور جہاد دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس وقت ٹیلر صاحب اور ان کے مشیر نیش عقرب کمربستہ کھڑے ہوگئے اور چوکڑی بھرنے لگے اور چونکہ حکام ضلع وگورنمنٹ اس وقت خاندان صادق پور سے خصوصاً اور جملہ فرقہ اہل حدیث سے عموماً بدظن وغضبناک ہو رہی تھی۔ اس کا موقعہ پاکر جھٹ ان کمینوں نے حکام ضلع وگورنمنٹ کے کان میں پھونکا کہ یہ ممکن نہیں کہ مولوی یحییٰ علی وعبدالرحیم وجملہ فرقہ اہل حدیث اس بغاوت کے جرم میں ملوث ہوں اور مولوی احمد اﷲ اس سے بری ہوں۔‘‘
(تذکرہ صادقہ ص۴۶،۴۷)
دارورسن کی گود میں پالے ہوئے ہیں ہم
سانچے میں مشکلات کے ڈھالے ہوئے ہیں ہم
وہ دولت جنوں کہ زمانے سے اٹھ گئی
اس دولت جنوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم