خلاف انگریز کی تخلیق اور سازش ثابت کیا تو اس نے اڑی ہوئی رنگت اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث سے جو اس سفر میں راقم الحروف کے ساتھ تھے۔ کہا تھا کہ ’’احسان صاحب دو دھاری تلوار ہیں‘‘ اور اس سے بھی پہلے ۱۹۶۴ء میں جب میں مدینہ یونیورسٹی سے رخصت پر گھر آیا تھا اور آپ نے سیالکوٹ کے چند مرزائی لڑکوں کے ذریعہ مجھے ربوہ آنے کی دعوت دی تھی اور جناب جلال الدین شمس کے مکتبہ میں بیٹھ کر صداقت مرزا کے موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے میں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی پیش گوئیوں کو پیش کیا تھا تو آپ نے اپنے سامنے ایک نوخیز طالب علم کو دیکھتے ہوئے بڑے وثوق اور اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ مرزاغلام احمدقادیانی کی کوئی پیش گوئی ایسی نہیں جو پوری نہ ہوئی ہو اور محمدی بیگم کی پیش گوئی کے متعلق ایسی توجیہ پیش کی تھی۔ جسے سن کر حاضرین اور خود جلال الدین شمس بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے تھے تو آپ نے اپنی پیشانی سے پشیمانی کے قطرے پونچھتے ہوئے کہا تھا کہ پیش گوئی کا نبی کی زندگی میں پورا ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح کہ حضور اکرمﷺ کی پیش گوئیاں بعد میں پوری ہوئیں تو میں نے جواب دیا تھا کہ جناب محمدی بیگم کی پیش گوئی تو تعلق ہی مرزا کی زندگی سے رکھتی ہے۔ وگرنہ شادی قبر مرزا سے ہوگی؟ تو شمس صاحب نے آپ کی مدد کرتے ہوئے کہا کہ نبیوں کی تمام پیش گوئیوں کا پورا ہونا ضروری تو نہیں ہوتا۔ جس طرح کہ حضور اکرمﷺ کی بعض پیش گوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور جب میں نے چیلنج دیا کہ ایسا کہنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے اور آنحضرتﷺ کی کوئی پیش گوئی ایسی نہیں جو وقت پر پوری نہ ہوئی ہو تو آپ دونوں بغلیں جھانکنے لگے تھے اور پھر آپ کو یاد ہے کہ آپ نے کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کے لئے کہا تو میں مرزائی معتقدات کا مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہونا ثابت کیا۔ اثنائے گفتگو جب ختم نبوت کا تذکرہ آیا تو آپ نے اسے موضوع بحث بنانے اور مرزائیت پر دلیل ٹھہرانے کے لئے زور دیا۔ میں قصداً اس سے گریز کرتا رہا۔ کیونکہ میں اس موضوع پر ان ہی دنوں ایک مفصل اور مبسوط مقالہ عربی میں تحریر کر چکا تھا اور چاہتا تھا کہ میرے انکار کو اس مسئلہ میں عدم علم پر محمول کرتے ہوئے آپ اور اصرار کریں اور اس بحث کو صدق وکذب مرزا پر فیصلہ کن قرار دیں اور یہی ہوا۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد آپ نے محسوس کیا کہ اس موضوع پر میری گرفت دیگر مواضیع سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور جب میں نے آپ کی حواس باختگی سے اور زیادہ لطف لینے کے لئے آپ کو خبر دی کہ اس موضوع پر میرا ایک مفصل اور مبسوط مقالہ عربی پرچوں میں چھپ چکا ہے تو