آپ کی حالت دیدنی تھی۔ آپ فوراً اٹھے اور چھٹکارا پانے کے لئے جلدی سے اسی موضوع پر اپنا ایک رسالہ اپنے دستخطوں سے مجھے دیا کہ جب دونوں طرف سے اس مسئلہ پر تحریریں موجود ہیں تو اس بحث سے کیا فائدہ اور میرے شدید اصرار پر بھی آپ آمادہ گفتگو نہ ہوئے اور آپ کا وہ رسالہ آج بھی آپ کی شکست کی یاد گار کے طور پاس محفوظ ہے۔
اور پھر مجھے سیالکوٹ کے ان مرزائی لڑکوں نے یہ بھی بتلایا کہ جب انہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے مناظر ہوکر ایک معمولی طالب علم کو لاجواب نہیں کر سکے۔ جس کے متعلق آپ کا خیال تھا کہ وہ پانچ منٹ سے زیادہ عرصہ آپ سے گفتگو نہیں کر سکے گا۔ تو آپ نے فرمایا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس لڑکے کو سمجھنے میں غلطی کی اور اسی وجہ سے کوئی خاص تیاری انہیں کر سکا۔ وگرنہ اس کا بات کرنا دوبھر ہوجاتا اور پھر لڑکے نے الاعتصام کے صفحات میں آپ کی اور آپ کے متنبی کی اپنی تحریروں سے آپ کے خود ساختہ مذہب کے پرخچے اڑا دئیے۔ لیکن ہنوز آپ کی تیاری نہیں ہوسکی اور نہ انشاء اﷲ مرتے دم تک ہوسکے گی اور آج آپ بایں بے بضاعتی، بے علمی اور بے مائیگی ایک فریب خوردہ قوم کو اور زیادہ دھوکے میں مبتلا کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ نے شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲؒ اور مناظر المسلمین مولانا محمد حسین بٹالویؒ کو شکست دی۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین!
حضرت! کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی؟
نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے
آپ کی لاف زنی کے دن ختم ہوگئے۔ آئیے ہم آج بھی آپ کو سرعام دعوت دیتے ہیں کہ جس موضوع پر جہاں چاہیں ہم سے تقریری یا تحریری گفتگو کر لیں۔ تاکہ لوگوں کو آپ کی کذب بیانی کے ساتھ آپ کے مذہب اور متنبی کے جھوٹ کا بھی علم ہو جائے۔
رہ گئی بات ’’لاہور‘‘ کی تو اس چیتھڑے نے سوائے ہرزہ سرائی اور بیہودہ گوئی کے کبھی دلیل وسند سے بات ہی نہیں کی۔ اگر گالی کا جواب گالی میں ہی سننا اس کا شوق ہے تو اسے سن لینا چاہئے کہ ہم امت مرزائیہ کو دائرہ اسلام سے خارج اور سرور کائنات علیہ السلام کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کذاب اور دجال سمجھتے ہیں اور ان کی عبادت گاہیں ہمارے نزدیک مسجد ضرار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں کہ جب بھی اس دیس میں صحیح اسلامی حکومت قائم ہوئی انہیں مسمار