اور ’’پیغام صلح‘‘ لاہور خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر پرچے ’’پیغام صلح‘‘ کو چھوڑ کر کہ لاہوری مرزائیوں کا ترجمان ہے اور ہم سابق میں دو تین مرتبہ اس کی دریدہ دہنیوں کا اچھی طرح نوٹس لے چکے ہیں۔ پہلے دونوں چیتھڑوں کا انداز متانت وشرافت سے بالکل عاری ہوتا ہے۔‘‘
’’الفرقان‘‘ ربوہ کے مدیر ابوالعطاء اﷲ دتہ جالندھری نے اہل حدیث کے خلاف یاوہ گوئی کی ابتداء اس وقت کی جب ہم الاعتصام کی ادارت سے الگ ہوگئے۔ اس کے بعد اس نے ہماری مصروفیات کو دیکھتے ہوئے جھوٹ اور غلط بیانی کا ایک طومار باندھ دیا اور مزیدار بات کہ باوجود ہفتہ وار اہل حدیث اور ماہنامہ ترجمان الحدیث کے تبادلتہ جاری ہونے کے الفرقان دفتر اہل حدیث میں ارسال کرنے سے گریز کیا تاکہ ہم ان کے کذب کو آشکار نہ کر سکیں۔
پچھلے دنوں اچانک ہی الفرقان کے چند پرچے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس اخبار کا مدیر جو ہمارے سامنے بھیگی بلی بنا رہا کرتا تھا۔ ہمارے میدان سے ہٹتے ہی کس طرح شیر بن گیا ہے کہ اسے یہ کہتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں ہوئی کہ: ’’اس نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں شیخ الاسلام، وکیل المسلمین مولانا ثناء اﷲ الامرتسری کو اسلام اور مرزائیت کے موضوع پر شکست فاش سے دوچار کر دیا تھا اور برصغیر کے نامور عالم دین اور مناظر اسلام حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ اس سے گفتگو کی تاب نہ لاسکے تھے۔‘‘خدا کی شان تو دیکھو کہ کلچڑی گنجی
حضور بلبل بستاں کرے نوا سنجی
حالانکہ یہ وہی مرزائی مناظر ہے کہ جس نے الاعتصام کے زمانہ ادارت میں ایک دفعہ اور صرف ایک دفعہ ہمارے سامنے آنے کی جرأت کی تھی اور پھر دوسری بار سامنے آنے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پاسکا اور جس کا تعاقب ہم نے ربوہ کی چاردیواری تک کیا تھا۔ لیکن باوجود للکارنے اور ابھارنے کے اسے گفتگو کی ہمت نہ ہوئی۔ کیا اسے الاعتصام کے وہ گیارہ اداریے بھول گئے ہیں۔ جن کا جواب نہ پاتے ہوئے اس نے اپنے آقا ایوب کی بارگاہ میں دہائی دینا شروع کر دیا تھا۔ یا مدیر المنبر کے بارہ میں ہماری شہادت پر مدیر الفرقان کے نام ہمارا وہ تازیانہ اسے یاد نہیں رہا۔ جس کی ٹیس وہ مدتوں تک محسوس کرتا رہا؟
اور اس نے یہ بھی فراموش کر دیا ہے کہ ہم نے اس کے دفتر ربوہ میں بیٹھ کر اسرائیل اور مرزائیت کے تعلق اور روابط پر اس سے گفتگو کی اور مرزائیت اور اسرائیل دونوں کو مسلمانوں کے