اب جبکہ ان اداروں پر قدغن لگانے کے متعلق سوچا جارہا ہے جن کی اپنی کوئی پراپرٹی نہیں اور جن کا تمام بارچند اہل خیر حضرات کے کندھوں پر ہے۔ تب اس مذہب کے ان بے پناہ سرمایہ دار اداروں کے بارے میں کیوں لب کشائی نہیں کی جاتی؟
ہماری مراد ہندوستانی نبی مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی کی امت اور ان کی جماعت سے ہے۔ جنہوں نے حکومت پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ایک الگ حکومت کی تشکیل کر رکھی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے اس بات پر اضطراب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان پر تو ملک کے تمام قوانین وضوابط لاگو ہوں۔ لیکن چند ایسے لوگوں کو ان قوانین وضوابط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ جنہوں نے اپنی عقیدتوں کا مرکز محمد عربیﷺ کی بجائے غلام ہندی کو بنارکھا ہے اور جن کے نہاں خانہ دل میں پاکستان میں بستے ہوئے بھی، ہندوستان کی ایک بستی رچی اور بسی ہوئی ہے۔ اگر اوقاف بورڈ، اہل حدیث، بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور دیگر مسلمان فرقوں کے دینی اور صاحب املاک اداروں پر اپنے پہرے بٹھا سکتا ہے تو مرزائی صاحب جائیداد، اداروں پر کیوں پہرے نہیں بٹھائے جاتے کہ جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ اور جنہوں نے چناب کے کنارے آباد بستی میں علاقہ حکومتی طرز پر سیکریٹریٹ تک بنارکھا ہے اور جس بستی میں مرزائی آقاؤں کی مرضی کے بغیر کوئی شخص کوٹھری تک کی تعمیر نہیں کر سکتا اور جہاں کے باسی بڑے فخرومباہات سے کہتے ہیں کہ ہماری بستی میں بعض سرکاری دفاتر موجود تو ہیں۔ لیکن ان دفاتر کے افسران ہماری امت کے ہی لوگ ہیں۔ جن کی وجہ سے ان سرکاری دفاتر کی حیثیت عملاً مرزائی اداروں کی ہو کر رہ گئی ہے اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ آئے دن مرزائی اخبارات میں اس نوعیت کے اشتہارات آتے رہتے ہیں کہ ملک کے فلاں شعبہ میں اس قدر اسامیاں خالی ہیں اور فلاں میں اس قدر۔ اس لئے فوری طور پر اپنی درخواستیں ربوہ میں فلاں کے نام ارسال کر دی جائیں۔ اس قسم کے اشتہارات کو پڑھ کر ایک عام آدمی فوری طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ربوہ کو درخواستیں لینے کے اختیارات کس نے تفویض کر رکھے ہیں؟ حکومت نے یا ان مرزائی آفیسروں نے جو مختلف شعبوں کے سربراہ ہیں اور پھر آیا ان آفیسروں کو یا ان کے گماشتوں کو قانون پاکستان کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملازمت کی درخواستیں ایک مخصوص غیرمسلم مذہب کے توسط سے طلب کرے۔ وگرنہ کیا یہ امور حکومت میں مداخلت تو نہیں؟ پاکستان میں بسنے والی مسلمان اکثریت کہ (جس نے اور) جس کے لئے اس ملک کو حاصل کیاگیا تھا۔ اس بات پر بھی بے چینی کا