رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔‘‘
(مضمون از مرزابشیر الدین محمود، مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج۱۷ نمبر۶ مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۲۹ئ)
اور اب ذرا مرزائیت کے مبلغ اعظم خواجہ کمال الدین کی شہادت بھی قلمبند کر لیجئے: ’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہ والی زند اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچایا کرتے تھے اور پھر قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں۔ وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ کر گئیں کہ تم جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جاکر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
اور لدھیانہ کا ایک مرزائی یوں نوحہ کناں ہے: ’’جماعت مقروض ہوکر اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے۔ مگر یہاں بیوی صاحبہ (غلام احمد کی بیوی) کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۶ نمبر۳۰۰، مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۳۸ئ)
اور جناب محمد علی مفسر مرزائیت کی اپنے مسیح موعود کے بارہ میں گواہی کیا ہے وہ بھی قابل اشاعت ہے: ’’حضرت صاحب (مرزاغلام احمد قادیانی) نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی۔ اسی دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) صاحب اور مولوی محمد علی صاحب مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا (واحسرتا) ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ (کس کا؟ اپنا؟ واقعی اچھا نہ ہوا) چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے۔ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھروں میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا کہ کیا یہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں ۔ان کو روپیہ سے کیا تعلق۔‘‘
(حقیقت اختلاف ص۵۰)
اور آخر میں کیا مدیر ’’الفرقان‘‘ ربوہ ایک بہت بڑے مرزائی کی شہادت کو بھی اپنے