جب مسلمان انگریز سے اپنی آخری موت وزیست کی لڑائی لڑ رہے تھے) انہوںنے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ پھر میرے والد کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی، مرزاغلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۴، خزائن ج۱۳ ص۴)
اور اپنے گرامی مرتبت خاندان کی خدمات جلیلہ برائے سرکار انگریزی گنوانے کے بعد اپنا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریزی کی ایک مثالی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیرخواہ گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اس کی اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے دلی جانثار۔‘‘
(مندرجہ تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
کیا مدیر ’’الفرقان‘‘ مرزائیت کے بارے میں بھی مدیر ’’الاعتصام‘‘ کی اس گواہی کو جو خود ان کے مقتداء کی اپنی تحریرات سے آراستہ وپیراستہ اور تائید یافتہ ہے۔ اپنے پرچہ میں درج کرنے کی جرأت کریں گے ؎
آئینہ دیکھ اپنا سامنہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل دینے پہ کتنا غرور تھا
اور اگر مدیر ’’الاعتصام‘‘ کی مسلمان ہونے کے ناطے مدیر ’’المنبر‘‘ کے بارہ میں گواہی نقل کی جاسکتی ہے تو خان احمد دین قادیانی کی مرزائی بہو کی گواہی، مرزائی خلیفہ میاں بشیرالدین محمود کے بارے میں کیوں نقل نہیں کی جاسکتی۔ جس میں اس مظلومہ وبے کس وبے بس نے مرزامحمود پر عصمت دری کا الزام لگایا تھا اور پھر مدیر ’’الفرقان‘‘ کا میاں فخرالدین مرزائی ملتانی کی شہادت کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جسے اس نے مرزابشیر الدین محمود کے بارہ میں مرزائی مہاشہ محمد عمر کے حضور ثبت کروایا تھا کہ مرزامحمود کو تحریک جدید کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پہلے تو لڑکوں کو تلاش کرنا پڑتا تھا اور اب لڑکے جمع شدہ مل جاتے ہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۲۵ نمبر۱۶۵، مورخہ ۸؍جولائی۱۹۳۷ئ)