مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اوراق پلٹے تو دیکھا کہ مدیر ’’الفرقان‘‘ نے اپنے مذہب اور بانیان مذہب کی دیرینہ روایات پر عمل کرتے ہوئے دو بھائیوں (بمصداق آیت قرآنی ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘) مدیر ’’الاعتصام‘‘ اور مدیر ’’المنبر‘‘ کے باہمی اختلاف فکر اور اختلاف رائے کو اچھال کر اپنی مقصد براری کی کوشش کی ہے۔
ہم نے بانیان مذہب لفظ جمع کو قصداً استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک مرزائیت بے چارے اکیلے مرزاغلام احمد قادیانی ایسے بیمار آدمی کی تنہا کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک پورے غدار، خائن اور مسلم دشمن خانوادے اور ٹولے کی غداری، خیانت اور اسلام دشمنی کا ثمرہ ہے۔ جس کی تخم پاشی آبیاری اور افزائش اسلامیوں سے پٹے ہوئے صلیبی عیسائیوں اور شیوجی کے پجاریوں نے کی ہے۔
اور اس بات کے ثبوت کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے اعترافات اور علامہ اقبالؒ کی تردید اور مرزائیت کی تائید میں پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین اور ڈاکٹر شنکر داس کا ۲۲؍اپریل کے اخبار بندے ماترم میں شائع شدہ مضمون کافی بڑی شہادت ہیں۔
اس سلسلے میں ہم تفصیل میں جائے بغیر مرزاغلام احمد قادیانی کے اپنے دو تین اقرار نامے ضرور نقل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ایک درخواست میں جو انگریز لیفٹیننٹ گورنر کو ارسال کی گئی تھی۔ کہتا ہے: ’’میں ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ خاندان اوّل درجہ پر سرکار دولت مدار انگریزی کا خیرخواہ ہے… میرے والد صاحب اور خاندان ابتداء سے سرکار انگریزی کے بدل وجان ہوا خواہ اور وفادار رہے اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزز افسروں نے مان لیا کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیرخواہ سرکار انگریزی ہے۔ میرا باپ اور میرا بھائی اور خود میں بھی روح کے جوش سے اس بات میں مصروف رہے کہ اس گورنمنٹ کے فوائد واحسانات کو لوگوں پر ظاہر کریں اور اس کی اطاعت کی فرضیت کو لوگوں کے دلوں پر جمادیں۔‘‘ (مندرجہ تبلیغ رسالت ج۷ ص۸تا۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۹تا۱۲)
’’اور میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزاغلام احمد قادیانی مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ (۱۸۵۷ء میں