الدین صاحب کے اس بیان میں کس قدر واقعیت اور حقیقت ہے؟ ہم اس وقت صرف یہ پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ اگر واقعی لاہوری مرزائیوں کے یہی عقائد ہیں۔ جن کا اظہار اس لمبے چوڑے بیان میں کیاگیا ہے تو پھر ان کی مرزاغلام احمد قادیانی سے نسبت کیا معنی رکھتی ہے؟ جب کہ ان کے مذکورہ قول کے مطابق حضور اکرمﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا لعنتی ہے اور مرزاقادیانی ببانگ دہل اپنی نبوت کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کتاب حقیقت الوحی میں لکھتے ہیں: ’’اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
ایک اور جگہ اس سے بھی زیادہ وضاحت سے رقمطراز ہیں: ’’ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک ہے وہ جس نے مجھ کو پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں سے آخری راہ ہوں اور اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۵۶، خزائن ج۱۹ ص۶۰،۶۱)
اور پھر ان سب سے بڑھ کر: ’’پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جب کہ خود خدا نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کردوں یا کیونکر اس کے سوا کسی سے ڈروں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
صدرالدین صاحب اور ان کی جماعت بغور سنیں کہ مرزاقادیانی کیا کہہ رہے ہیں: ’’اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
اور اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’خدا نے ہزارہا نشانوں میں سے میری وہ تائید کی ہے کہ بہت ہی کم نبی گذرے ہیں جن کی یہ تائید کی گئی۔ لیکن پھر جن کے دلوں پر مہریں ہیں وہ خدا کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۵۸۷)
اور اپنی ایک دوسری کتاب میں اسی مفہوم کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’اور خدا نے اس