’’اور کبھی دورے اس قدر سخت پڑتے کہ ٹانگوں کو باندھ دیا جاتا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۲)
’’اور کبھی اس قدر غشی پڑ جاتی کہ چیخیں نکل جاتیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۳)
’’اور اس کے علاوہ ذیابیطس اور تشنج قلب اور دق کی بیماری اور حالت مردمی کالعدم اور دل دماغ اور جسم نہایت کمزور۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۰۹، خزائن ج۱۸ ص۵۸۷)
’’اور پھر ان سب پر مستزاد مالیخولیا اور مراق کا موذی مرض۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۵)
’’اور ہسٹریا بھی۔‘‘ (ریویو قادیان اگست ۱۹۲۶ئ)
اور پھر خدا منتقم وشدید العقاب نے ردائے نبوت کے سرقہ کے جرم کی پاداش میں اس طرح رسوا اور ذلیل کیا کہ: ’’قریب سو دفعہ کے دن رات میں پیشاب آتا ہے اور اس سے ضعف ہو جاتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ ج۵ ص۲۰۱، خزائن ج۲۱ ص۳۷۳)
’’اور اس وجہ سے رات کو مٹی کا برتن پاس ہی رکھ لیا جاتا اور اس میں پیشاب کر کے خود ہی مرزاقادیانی پیشاب کے برتن کو صاف کرتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۴۰ئ)
اور آخر کار موت نے اس کی تمام ذلتوں اور رسوائیوں پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ چنانچہ مرزاقادیان کے اپنے الفاظ جو اس نے شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲؒ کو دعوت مباہلہ میں لکھے خود اس کی ذلت آمیز اور رسواکن موت پر زبردست گواہ ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ: ’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتی ہوں۔ جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر بہت نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ناکام ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اور وہی ہواکہ اس کے صرف ایک سال اور ایک ماہ بعد مرزاقادیانی ذلت وحسرت کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ ایسے دشمنوں کی زندگی میں اس بری مرض میں مبتلا رہ کر مرگئے۔ جسے ہیضہ کہتے ہیں اور اس رسوائی کا نقشہ بھی خود ا س کے بیٹے نے کھینچا ہے جو اسے مرض موت میں لاحق ہوئی۔ وہ اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے: ’’پہلے ایک پاخانہ آیا اور اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ اپ پاخانے نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے چارپائی کے پاس