اور پھر انہی مرزائیوں کی جانب سے مرزابشیرالدین پر کیا کیا الزام لگائے گئے کہ اس نے نورالدین کی اولاد کا خاتمہ کیا۔ اس کی بیٹی اور اپنی بیوی امتہ الحئی کو قتل کروا دیا۔ نور الدین کے بیٹے عبدالحئی کو زہر دلوا کر مروادیا اور پھر یہ تو کل کی بات ہے۔ اسی نورالدین جس نے مرزائیت کی خاطر اپنا سب کچھ دین، ایمان، مذہب، ضمیر اور روپیہ ہرچیز لٹا دیا تھا۔ جس نے بقول پیغام صلح اپنے نور بصیرت سے مرزاقادیانی کے دعویٰ مسیحیت کو مان لیا تھا۔ اس کے دوسرے بیٹے عبدالمنان سے خلیفہ قادیان نے جو کچھ کیا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہ ہوگا کہ اسے منافق قرار دیا۔ اس کا سوشل بائیکاٹ کروایا اور ربوہ میں اس کا داخلہ ممنوع قرار پایا اور اسے اس جماعت تک سے نکال باہر پھینک دیا۔ جس کی خاطر اس کے باپ نے ہزار ذلت ورسوائی مول لی تھی اور اس طرح نورالدین کی عبرت انگیز اور ذلت آمیز موت پر ہی اکتفا نہ کیا۔ بلکہ اس کی رسوائی میں اس کی موت کے بعد اور اضافے کئے گئے اور اس کا نام ونشان تک مٹادیا گیا۔
ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے پھر کسی دوسرے پر حملہ آور ہونا اپنے گھر سے بیخبری کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟ یا شاید پیغام صلح کے مضمون نویس کو نورالدین کی زندگی کے احوال یاد رہ گئے ہوں۔ جنہیں وہ حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ کے حالات سمجھتا رہا ہو۔ وگرنہ ذلت ورسوائی کی موت نورالدین کے مقدر ہوئی نہ کہ مولانا بٹالوی کے اور پھر موت کے بعد تباہیاں اور نامرادیاں نورالدین کو نصیب ہوئیں کہ مرزائیوں کے بقول بچے بھی انہوں نے مروائے جن کی خاطر اس نے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ عزت کی موت کو بھی تج دیا تھا اور یہ رسوائیاں صرف اسی کا مقدر نہیں بنیں۔ بلکہ اس کا مقدر بھی جس کی خاطر اس نے اپنا ایمان اور مذہب تک قربان کر دیا تھا کہ خدائے جبار وقہار نے اس پر اس دنیا میں ہی انواع واقسام کی بیماریاں اور عذاب نازل کئے اور موت سے پہلے ہی رسوائیاں اور ذلتیں اس پر مسلط کر دی گئیں: ’’دادیاں ہاتھ ٹوٹ گیا اور آخر عمر تک شل رہا کہ اس ہاتھ سے پانی تک اٹھا کر نہ پیا جاسکتا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۱۷)
’’دانت خراب اور ان میں کیڑا لگا ہوا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۳۵)
’’آنکھیں اس قدر خراب کہ کھولنے میں تکلیف ہو۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۷۷)
’’حافظہ اس قدر خراب کہ بیان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۲۱)
’’دوران سر اور برداطراف کی اس قدر تکلیف کہ موت سے تین برس پہلے تک اور اس سے پہلے بھی متعدد سال رمضان کے روزے نہ رکھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۵۱)