محترم اور گرامی قدر شخصیت مولانا محمد حسین بٹالویؒ کے بارہ میں کی تھی۔ اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ اس شمارہ میں ہم اس کا علمی تجزیہ کریں گے اور بدلائل یہ ثابت کریں گے کہ مرزائی الزام کا اصل مصداق کون ہے؟ حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ یا مرزاغلام احمد قادیانی اور نور الدین بھیروی؟
یاد رہے کہ مرزائی پرچے پیغام صلح نے اپنے شمارہ نمبر۲۰،۲۱ ج۵۶، مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۶۸ء میں حکیم نورالدین بھیروی اور حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’چونکہ مولانا بٹالوی نے مرزاقادیانی کے دعویٰ مسیحیت کو قبول نہ کیا۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے اسے ذلیل کیا کہ نام ونشان ہی مٹ گیا اور اپنی زندگی میں وہ رسوا اور نامراد رہا۔‘‘
یہ عبارت اپنے اندر جس قدر گھٹیا پن اور پستی لئے ہوئے ہے۔ اس سے قطع نظر ہم اس وقت صرف یہ ثابت کریں گے کہ ذلت ورسوائی کی موت کون مرا؟
نورالدین جس نے مرزاقادیانی کے دعویٰ مسیحیت کو قبول کر لیا۔ یا کہ مرزاجس نے مسیحیت کا دعویٰ کیا؟
اسی اخبار پیغام صلح کے نامہ نگار نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا نام رکھا۔ ’’گنجینہ صداقت‘‘ اور اس اشتہار کو نقل کیا۔ مشہور مرزائی پرچے الفضل نے اس میں نورالدین کی ذلت ورسوائی کی موت کو اس کے نور بصیرت کے باوصف ان الفاظ میں ذکر کیاگیا ہے: ’’کہاں مولوی نور الدین صاحب کا حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نبی اﷲ اور رسول اﷲ اور اسمہ احمد کا مصداق یقین کرنا اور کہاں وہ حالت کہ وصیت کے وقت مسیح موعود کی رسالت کا اشارہ تک نہ کرنا۔ استقامت میں فرق آنا اور پھر بطور سزا کے گھوڑے سے گر کر بری طرح زخمی ہونا اور آئندہ جہاد میں بھی کچھ سزا اٹھانا اور اس کے بعد اس کے فرزند عبدالحئی کا عفوان شباب میں مرنا اور اس کی بیوی کا تباہ کن طریق پر کسی اور جگہ نکاح کر لینا۔ یہ باتیں کچھ کم عبرت انگیز نہیں۔‘‘
(منقول از اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۲؍فروری ۱۹۲۲ئ، ش۱۹ ج۹)
کیا کہتا ہے۔ پیغام صلح کا موجودہ مضمون نویس کہ یہ سچا ہے یا پیغام صلح کا وہ نامہ نگار جس نے گنجینہ صداقت شائع کیا تھا اور جس کی عبارت کو الفضل نے نقل کیا ہے؟ اور اسی پیغام صلح نے مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۱۷ء کو یہ خبر شائع کی تھی جو پس منظر کا پورا پتہ دیتی ہے کہ: ’’فروری کا مہینہ وہ مہینہ ہے جب حضرت مولانا نور الدین صاحب بستر علالت پر تھے اور آپ کی حالت دن بدن تشویشناک تھی۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۱۷ئ)