متعلق باربار پوچھتے ہیں۔ میں کہتا ہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوں گا کہ غیراحمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں، جائز نہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۸۹)
ایک اور جگہ پھر اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ کہتا ہے: ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۰)
اور پھر یہی محمود احمد اس حد تک دشنام طرازی پر اتر آیا ہے کہ: ’’کسی احمدی (مرزائی) نے احمدیت (مرزائیت) کی حالت میں غیراحمدی سے احمدی لڑکی کا نکاح نہیں کیا۔ اس سے مراد ہی ہے جو حدیث میں آیا ہے۔ ’’لا یزنی زان حین یزنی وھو مومن‘‘ نہیں زنا کرتا کوئی زانی درآں حالیکہ وہ مؤمن ہو۔ بعض احکام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو کرتے وقت انسان ایمان سے نکل جاتا ہے اور اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص احمدیت کو تسلیم کرتا ہو اور پھر غیراحمدی کو اپنی لڑکی دے دے۔‘‘ (الفصل قادیان مورخہ ۲۶،۲۹؍جون ۱۹۲۲ئ)
اور خود مرزاغلام احمد قادیانی کی مسلم دشمنی اور عداوت کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتا ہے: ’’یہ جو ہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے۔ اوّل تو یہ خدا کے حکم سے تھا، نہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ ریاپرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہے۔ جیسا کہ عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں جو سڑگیا ہے اور اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری جماعت کسی طرح ان سے تعلق نہیں رکھ سکتی اور نہ ہمیں ایسے تعلق کی حاجت ہے۔‘‘
(تشہیذ الاذہان ج۶ ش۸ ص۳۱۱، ماہ اگست ۱۹۱۱ئ)
اور پھر یہی مرزائے قادیانی انتہائی جسارت سے کام لے کر اپنے آپ کو سروع عالم محمد اکرمﷺ سے افضل واعلیٰ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا: ’’ہمارے نبی کریمﷺ کی روحانیت نے پانچ ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کی انتہاء نہ تھا۔ بلکہ کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری تجلی فرمائی۔‘‘ (تشحیذ الاذہان ج۶ نمبر۸ ص۳۱۱)
دیکھئے کس قدر گستاخی اور بے باکی سے ایک ادنیٰ ترین شخص اپنے آپ کو اعلیٰ الخلائق