اس الہامی شعر میں اﷲتعالیٰ نے مسئلہ کفر واسلام کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں خدا نے غیراحمدیوں کو مسلمان بھی کہا ہے کہ وہ مسلمان کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور جب تک یہ لفظ استعمال نہ کیا جاوے لوگوں کو پتہ نہیں چل سکتا کہ کون مراد ہے۔ مگر ان کے اسلام کا انکار اس لئے کیاگیا ہے کہ وہ اب خدا کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ ان کو پھر نئے سرے سے مسلمان کیا جاوے۔‘‘
(کلمتہ الفصل قادیان مندرجہ رسالہ ریویو ج۱۴ نمبر۳ ص۱۴۳)
اور یہی بشیر احمدقادیانی اسلام اور مسلمانوں سے اپنے بغض باطنی کو یوں اگلتا ہے: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی اس تحریر سے بہت سی باتیں حل ہو جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت صاحب کو اﷲ نے الہام کے ذریعے اطلاع دی کہ تیرا انکار کرنے والا مسلمان نہیں اور نہ صرف یہ اطلاع دی بلکہ حکم دیا کہ تو اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھ، دوسرے یہ کہ حضرت (مرزاقادیانی) نے عبدالحکیم خاں کو جماعت سے اس واسطے خارج کیا کہ وہ غیراحمدیوں کو مسلمان کہتا تھا۔ تیسرے یہ کہ مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے منکروں کو مسلمان کہنے کا عقیدہ ایک خبیث عقیدہ ہے۔ چوتھے یہ کہ جو ایسا عقیدہ رکھے اس کے لئے رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہے۔ چھٹے یہ کہ جو مسیح موعود کے منکروں کو راست باز قرار دیتا ہے۔ اس کا دل شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل قادیان مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ نمبر۳ ص۱۲۵)
ایک اور مرزائی مسلمانوں کے متعلق یوں گہربار ہے: ’’خداتعالیٰ نے مرزاقادیانی کو فرمایا کہ جس کو میرا محبوب بننا منظور اور مقصود ہو اس کو تیری اتباع کرنی اور تجھ پر ایمان لانا لازمی شرط ہے۔ ورنہ وہ میرا محبوب نہیں بن سکتا۔ اگر تیرے منکر تیرے اس فرمان کو قبول نہ کریں بلکہ شرارت اور تکذیب پر کمربستہ ہوں تو ہم سزا دہی کی طرف متوجہ ہوںگے۔ ان کافروں کے واسطے ہمارے پاس جہنم موجود ہے۔ جو قیدخانہ کا کام دے گا۔ یہاں صرف حضرت احمد (مرزاقادیانی) کے منکر اور اطاعت وبیعت میں نہ آنے والے گروہ کو کافر قرار دیا ہے اور جہنم ان کے لئے بطور قید خانہ قرار دیا ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الالہام ص۴۰)
اور مرزائیوں کا دوسرا خلیفہ مرزامحمود احمد مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی (احمدی) کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ باہر سے لوگ اس کے