جو محبط وحی بھی ہے اور منبع نور بھی۔ سرور کائناتﷺ کی ہجرت گاہ بھی ہے اور استراحت گاہ بھی کہ دنیا کا سب سے زیادہ برگزیدہ انسان اس کی گود میں محو خواب ہے۔ مدینہ وہ بستی ہے جس کا نام اﷲ نے طیبہ رکھا اور اس میںمرنے والے کے لئے رسول کریمﷺ کو شفاعت کی اجازت بخشی اور اسے وبال اور طاعون کے داخلہ سے مصئون رکھا اور جسے ناطق وحی رسول کریمﷺ نے اسی طرح محترم قرار دیا۔ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو محترم قرار دیا تھا اور دنیامیں یہی ایک مقام ہے جسے اﷲ کے نبی نے ایمان کا قلعہ کہا ہو۔
چنانچہ آپؐ کے ارشادات ہیں: ’’قال رسول اﷲﷺ المدینۃ طابۃ (بخاری ج۱ ص۲۵۲، مسلم)‘‘ {اﷲ نے مدینہ منورہ کا نام طابہ (پاکیزہ) رکھا ہے۔}
اور فرمایا: ’’من استطاع ان یموت بالمدینۃ فلیمت بہا فانی اشفع لمن یموت بہا (ترمذی ج۲ ص۲۲۹، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)‘‘ {جو مدینہ میں مر سکے وہ اس میں مرے کہ میں اس وفات پانے والے کے لئے قیامت کے دن سفارش کروں گا۔}
اور ارشاد فرمایا: ’’علی النقاب المدینۃ ملائکۃ لا یدخلہا الطاعون ولا الدجال (بخاری ج۱ ص۲۵۲، مسلم، مؤطا امام مالک، مسند احمد)‘‘ {مدینہ کے دروازوں پر اﷲ کے فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہوسکتے۔
نیز فرمایا: ’’ان ابراہیم حرم مکۃ وانی احرم مابین لا بتیہا (ترمذی ج۲ ص۲۳۰)‘‘ {ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو محترم فرمایا تھا اور میں مدینہ کو محترم قرار دیتا ہوں۔}
اور ارشاد فرما دیا: ’’ان الایمان لیارز الیٰ المدینۃ کما تارز الحیۃ الی حجرہا (بخاری ج۱ ص۲۵۲، مسلم، ابن ماجہ، مسند احمد)‘‘ {ایمان مدینہ منورہ کی طرف اس طرح پناہ پکڑے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں پناہ ڈھونڈھتا ہے۔}
نیز یہ بھی کہہ دیا: ’’المدینۃ تنفی الناس کما ینفی الکبیر خبث الحدید (بخاری ج۱ ص۲۵۲، مسلم، ترمذی، مؤطا امام مالک، مسند احمد، سنن ابی داؤد الطیالس)‘‘ {مدینہ لوگوں کو اس طرح چھانٹ دیتا ہے جس طرح ڈھونکنی خراب لوہے کو خالص لوہے سے الگ کر دیتی ہے۔}
یہ تو ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا اصل مقام اور ان کا حقیقی مرتبہ، لیکن آج مرزائی اسے