اور لذت جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے الہاموں کو پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے کسی اور کتاب کو پڑھنے سے نہیں ہوسکتی۔ جو ان الہاموں کو پڑھے گا وہ کبھی مایوسی اور ناامیدی میں نہ گرے گا۔ مگر جو پڑھتا نہیں یا پڑھ کر بھول جاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس کا یقین اور امید جاتی رہے۔ وہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبرا جائے گا۔ کیونکہ وہ سرچشمہ امید سے دور ہوگیا۔ پس حقیقی عید سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے الہامات پڑھے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۲۸ئ)
اور خود مرزاقادیانی اپنی وحی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)
اور اسی بناء پر مرزائی یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کا ایک الگ اور مستقل دین ہے اور ان کی شریعت، شریعت مستقلہ ہے۔ نیز غلام احمد قادیانی کے ساتھی صحابہ کی مانند ہیں اور اس کی امت ایک نئی امت ہے۔ چنانچہ مرزائی اخبار الفضل نے ایک بڑا مفصل مقالہ شائع کیا۔ جس میں تھا کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے اس آخری صداقت کو قادیان کے ویرانہ میں نمودار کیا اور حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو جو فارسی النسل ہیں۔ اس اہم کام کے لئے منتخب فرمایا اور فرمایا میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچادوں گا اور حملہ آوروں سے تیری تائید کروں گا اور جو دین تو لے کر آیا ہے اسے تمام دیگر ادیان پر بذریعہ دلائل وبراہین غالب کروں گا اور اس کا غلبہ دنیا کے آخر تک قائم رکھوں گا۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳؍فروری ۱۹۳۵ئ)
اور اسی اخبار نے شائع کیا: ’’پس ہر احمدی کو جس نے احمدیت کی حالت میں حضور (مرزاقادیانی) کو دیکھا یا حضور نے اسے دیکھا، صحابی کہا جائے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
اسی طرح خود مرزاقادیانی نے اپنے بارہ میں لکھا کہ: ’’جو میری جماعت میں داخل ہوا وہ درحقیقت سید المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸)
اس پر مرزائی اخبار الفضل حاشیہ آرائی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ’’مرزاغلام احمد قادیانی کی جماعت حقیقت میں صحابہ کی جماعت ہے۔ جس طرح صحابہ حضور کے فیوض سے متمتع ہوتے تھے۔ اسی طرح مرزاغلام احمد قادیانی کی جماعت ان کے فیوض سے متمتع ہوتی ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ یکم؍جنوری۱۹۱۴ئ)