حاصل ہو سکے۔ چنانچہ دوستوں کی خواہش، یونیورسٹی کے اساتذہ کی فرمائش اور وقت کی ضرورت کی بناء پر میں نے وہیں مدینہ منورہ میں ہی قادیانی ازم پر عربی میں مقالات لکھنے شروع کئے۔ لیکن ان میں اس بات کو پیش نگاہ رکھا کہ کوئی بات بے سند اور بے دلیل نہ کہی جائے اور جس بات کا ذکر کیا جائے اس کا پورا حوالہ دیا جائے۔
یہ مقالات مختلف عربی پرچوں میں چھپتے رہے اور آخر میں مدینہ منورہ کے ایک پبلشر نے ۱۹۶۷ء میں انہیں جمع کر کے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ الحمدﷲ اس کے بیشمار اچھے نتائج برآمد ہوئے اور افریقہ میں خصوصاً اس کتاب کی بے حد مانگ رہی۔ (اسی کتاب کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اب اس کا پانچواں ایڈیشن ترمیم واضافہ کے ساتھ قاہرہ کے ’’المکتبتہ السلفیہ‘‘ سے شائع ہورہا ہے)
ان ہی ایام میں افریقہ سے کچھ احباب نے اس طرف توجہ دلائی کہ اگر اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہو جائے تو اس کی افادیت بڑھ جائے۔ کیونکہ افریقہ میں عربی کی نسبت انگریزی زیادہ سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ’’ادارہ ترجمان السنہ‘‘ لاہور نے شائع کر دیا اور امید ہے کہ وہ عربی سے کچھ کم مفید نہ ہوگا۔ (اس کے بھی اب تک چار ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اب نظر ثانی کے بعد اس کا پانچواں ایڈیشن زیر طبع ہے)
۱۹۶۸ء میں پاکستان واپسی پر میں نے محسوس کیاکہ ہمارے جرائد ومجلات مرزائیت کی طرف اس قدر توجہ نہیں دے رہے۔ جس قدر انہیں دینی چاہئے۔ چند ایک حضرات کو چھوڑ کر کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ مرزائی اخبارات مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے بارہ میں کیا کچھ لکھتے اور کس قدر زہر پھیلاتے ہیں۔ خصوصاً قادیانی مرزائیوں کا ترجمان ’’الفرقان‘‘ اور لاہوری مرزائیوں کا ہفتہ وار ’’پیغام صلح‘‘ لاہور، تو اکابرین امت پر طعن توڑنے اور عقائد اسلام کا مضحکہ اڑانے میں اس قدر گستاخ ہوچکے ہیں کہ نہ تو انہیں پاکستان کی مسلم اکثریت کے جذبات کا کچھ پاس ہے نہ حکومت کے محکمہ احتساب کا کچھ ڈر۔ جب کہ دوسری جانب حکومت اس قدر حساس تھی کہ وہ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے ایک بے ضرر چار سطری شذرے کو بھی برداشت نہ کر سکی۔ جس میں سعودی عرب میں مرزائیت پر عائد کی گئی پابندیوں کا خیرمقدم کیاگیا تھا۔
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس مسلمان ملک میں کفر کی یہ ستم رانی میرے لئے بڑے کرب کا باعث تھی۔ مرزائیت کے بارہ میں اپنی سابقہ معلومات اور اس کے موجودہ احوال کی بناء پر میں خاموش نہ رہ سکا اور جمعیت اہل حدیث کے ہفتہ وار اخبار ’’الاعتصام‘‘ میں جو